0

ایرانی صدر کی پاکستان آمد پر پاک ایران گیس پائپ لائن پر کوئی گفتگو کیوں نہیں کی گئی؟سوچا سمجھا اقدام یا پاکستان کو ڈر؟جانیں

ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی اپنے تین روزہ دورے پر کراچی میں ہیں۔ پاکستان پہنچنے کے بعد انہوں نے کئی ملاقاتیں کیں اور معاملات اور معاہدوں، سرحد پار سے دہشت گردی کی روک تھام کے اقدامات، دونوں ممالک کے درمیان تعاون پر تبادلہ خیال کیا۔ تجارت کے حجم میں اضافہ، نئے اقتصادی زونز کے قیام سمیت آٹھ مختلف معاہدوں پر دستخط ہوئے تاہم پاکستان ایران گیس پائپ لائن پر کوئی بات چیت یا خبر نہیں ہوئی۔ بی بی سی کے مطابق توقع تھی کہ دورے کے موقع پر تاہم پاکستان کے توانائی بحران کے حل کے لیے اہم سمجھے جانے والے ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کے مستقبل سے متعلق امور پر بھی غور کیا جائے گا۔لیکن ایرانی صدر کی اہم ملاقاتوں کے بعد ہونے والی مشترکہ پریس کانفرنس اور سرکاری پریس ریلیز میں اس اہم منصوبے کا کوئی ذکر نہیں تھا، حتیٰ کہ کسی وزیر یا مشیر نے بھی اس بارے میں کوئی بیان نہیں دیا۔جس کے بعد یہ بحث شروع ہو گئی کہ آخر اس خاموشی کی وجہ کیا ہے؟ کیا پاکستان ممکنہ امریکی دباؤ کی وجہ سے اس منصوبے پر بات کرنے سے گریزاں ہے یا یہ دونوں ممالک کی طرف سے دانستہ اقدام ہے؟ اور اگر اس اہم منصوبے پر بات نہیں ہو رہی تو ایرانی صدر کے اس دورہ پاکستان سے دونوں ممالک کو کیا فائدہ ہو گا؟منصوبے میں تاخیر نے پاکستان کو پہلے ہی مشکلات میں ڈال دیا ہے، جہاں ایک طرف ایران پائپ لائن بچھانے کے لیے اپنی جانب سے کام نہ کرنے پر عالمی اداروں کے ذریعے پاکستان پر جرمانہ عائد کر سکتا ہے، وہیں دوسری جانب امریکی پابندیاں بھی لگ سکتی ہیں۔ کمزور پاکستانی معیشت بین الاقوامی امور کی ماہر ڈاکٹر ہما ​​بقائی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ صورتحال میں دونوں ممالک کا ایران پاکستان گیس لائن منصوبے کا ذکر نہ کرنا دانشمندانہ اقدام ہے۔انہوں نے کہا کہ دوسری جانب ایران کی جانب سے اس منصوبے کے تحت گیس کی قیمت کے تعین کا مسئلہ درپیش ہے۔ اب تک ایران نے اس معاملے میں تاخیر کے باوجود نیک نیتی کا مظاہرہ کیا ہے اور گیس پائپ لائن کے اپنے حصے کی بروقت تعمیر نہ کرنے پر پاکستان پر جرمانہ عائد کرنے کا عمل شروع نہیں کیا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں