
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے ہارورڈ یونیورسٹی کی بین الاقوامی طلبہ کو داخلہ دینے کی اہلیت ختم کر دی ہے۔ یہ اعلان ہوم لینڈ سیکیورٹی کی سیکریٹری کرسٹی نوم نے ایکس پر ایک بیان میں کیا۔
نوم نے اپنے بیان میں کہا کہ ہارورڈ کو ان کے کیمپس میں تشدد کو فروغ دینے، یہود مخالف سرگرمیوں اورچینی کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ تعاون پر جواب دہ ٹھہرایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا ان کے مطابق بین الاقوامی طلبہ کو داخلہ دینا ایک حق نہیں بلکہ ایک سہولت ہے، جسے اب ہارورڈ سے واپس لے لیا گیا ہے۔
محکمہ داخلہ کی جانب سے ہارورڈ یونیورسٹی کو ایک خط بھی بھیجا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یونیورسٹی کا اسٹوڈنٹ ایکسچینج وزیٹر پروگرام سرٹیفکیٹ منسوخ کر دیا گیا ہے۔ یہ سرٹیفکیٹ تعلیمی اداروں کو غیر ملکی طلبہ کو تعلیم دینے کے لیے درکار ہوتا ہے۔ اس منسوخی کا مطلب یہ ہے کہ اب ہارورڈ نئے بین الاقوامی طلبہ کو داخلہ نہیں دے سکتا، اور موجودہ غیر ملکی طلبہ کو اپنے ویزے کی حیثیت برقرار رکھنے کے لیے کسی اور ادارے میں منتقل ہونا پڑے گا۔
ہارورڈ یونیورسٹی نے اس فیصلے کو غیر قانونی اور انتقامی کارروائی قرار دیا ہے۔ یونیورسٹی نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم پوری طرح پرعزم ہیں کہ ہارورڈ میں بین الاقوامی طلبہ اور اسکالرز کی موجودگی برقرار رکھی جائے، جو دنیا کے 140 سے زائد ممالک سے آتے ہیں اور یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ امریکہ کو بھی بے پناہ فائدہ پہنچاتے ہیں۔
یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب ہارورڈ اور ٹرمپ حکومت کے درمیان کئی مہینوں سے تناؤ جاری ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ہارورڈ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ کیمپس پر ہونے والی پرو فلسطین سرگرمیوں، یہود مخالف مظاہروں، اور کچھ دیگر پالیسیوں پر نظرثانی کرے۔
لیکن یونیورسٹی کی انتظامیہ نے ان مطالبات کو تعلیمی خودمختاری کے خلاف قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے بھی حکومت تین مرتبہ ہارورڈ کی وفاقی فنڈنگ میں کٹوتی کر چکی ہے، جس کی مجموعی مالیت 2.6 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ ہارورڈ نے اس کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کر رکھا ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ حکومت کا رویہ آئین کی خلاف ورزی ہے۔
یہ تنازع ایسے وقت میں شدت اختیار کر گیا تھا جب امریکہ بھر کی یونیورسٹیوں میں اسرائیل-حماس جنگ کے بعد فلسطین کے حق میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ان مظاہروں کو یہود مخالف قرار دیتے ہوئے سخت کریک ڈاؤن کا آغاز کیا، جبکہ مظاہرین اور ناقدین اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔
قانونی ماہرین حکومت کے اس اقدام کو قانونی طور پر متنازع قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سرٹیفکیٹ کی منسوخی کے لیے ایک واضح نوٹس اور قانونی جواز درکار ہوتا ہے، صرف سیاسی نظریات کی بنیاد پر یہ اقدام قابل قبول نہیں ہے۔
حکومت نے پہلے ہی اپریل میں ہارورڈ کو خبردار کیا تھا کہ اگر انہوں نے کیمپس پر غیر ملکی طلبہ کی مبینہ غیر قانونی سرگرمیوں کی مکمل رپورٹ 30 اپریل تک فراہم نہ کی تو سخت کارروائی کی جائے گی۔
ہارورڈ یونیورسٹی میں تقریباً 9 ہزار 970 غیر ملکی طلبہ ہیں، سیشن 2024-25 میں داخل ہونے والے کل طلبہ میں تقریباً 27 فیصد غیر ملکی طلبہ ہیں۔
اس پابندی کے بعد نہ صرف ان طلبہ پر شدید نفسیاتی اور تعلیمی اثر پڑنے کا خدشہ ہے بلکہ یونیورسٹی کو بھی مالی طور پر بھی نقصان کا سامنا ہو سکتا ہے کیونکہ بین الاقوامی طلبہ کی فیسیں یونیورسٹی کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہیں۔