کالمز

امریکی حملوں‌ کے بعد ایران کے افزودہ یورینیم کی گتھی الجھ گئی

حملوں کے بعد 60 فیصدافزودہ 400 کلوگرام یورینیم کی موجودہ لوکیشن معلوم نہیں ہوسکی، میڈیا رپورٹس

ایران اوراسرائیل کے درمیان 12 روزہ جنگ کے بعد جنگ بندی کا اعلان کردیا گیا ہے تاہم عالمی ماہرین اورتجزیہ کاراب بھی یہ کھوج لگانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ایران کا 400 کلو گرام افزودہ یورینیم کہا گیا؟

ماہرین اور بین الاقوامی مبصرین کے مطابق، ایران کے جوہری پلانٹس میں موجود یورینیم کے زیادہ تر ذخائرحالیہ امریکی حملوں سے پہلے ہی کسی اورمقام پرمنتقل کیے جا چکے تھے۔ بلومبرگ، نیویارک ٹائمز اور ٹیلی گراف جیسی خبر رساں ایجنسیوں نے رپورٹ کیا ہے کہ ان تین اہم ایرانی جوہری تنصیبات پرامریکی حملوں کے بعد 60 فیصد افزودہ کردہ 400 کلوگرام یورینیم کی موجودہ لوکیشن معلوم نہیں ہو سکی۔

اگرچہ امریکی حکام نے فوری طور پر یہ مؤقف اپنایا کہ ایران کی جوہری صلاحیت کو کمزور کر دیا گیا ہے، لیکن علاقائی ماہرین اور بین الاقوامی ادارے سمجھتے ہیں کہ سب سے حساس مواد ہو سکتا ہے حملوں سے پہلے ہی منتقل کر لیا گیا ہو۔

بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کے سربراہ رافیل گروسی کے مطابق انہیں فردو میں بڑے پیمانے پر تباہی کی توقع ہے، لیکن ان کا ادارہ اس ذخیرے کا سراغ لگانے کی کوشش کر رہا ہے، ان کے مطابق اقوامِ متحدہ کے معائنہ کاروں نے آخری بار اس ایندھن کو 13 جون کو اسرائیلی حملے سے ایک ہفتہ قبل دیکھا تھا۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق، دو اسرائیلی حکام نے بتایا کہ حالیہ دنوں میں ایران نے فردو کے باہر سے یورینیم اوردیگرسازوسامان منتقل کیا ہے، انہوں نے دعویٰ کیا کہ اصفہان میں موجود 400 کلوگرام 60 فیصد افزودہ یورینیم کو بھی کسی خفیہ مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے،یہ تاثر بھی ملا کہ یہ مواد اتوار کے روز آخری لمحات میں منتقل کیا گیا۔

امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کے مطابق ،ہم آئندہ ہفتوں میں یقینی بنائیں گے کہ اس سے متعلق کچھ کیا جا سکے۔،سیٹلائٹ تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی حملے سے دو روز قبل فردو تنصیب کے ارد گرد ٹرک، بلڈوزر اور سیکیورٹی قافلے دیکھے گئے۔

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران نے 60 فیصد افزودہ یورینیم کہاں منتقل کی ہے، وہ مقام ہمیں معلوم ہے، لیکن انہوں نے اس کے بارے میں مزید بات کرنے سے گریز کیا،دیگر دیگراسرائیلی حکام نے بھی اس بات پر اتفاق کیا کہ شواہد بتاتے ہیں کہا کہ ایران نے حملے سے پہلے اپنا یورینیم منتقل کر دیا تھا، حملے سے دو دن پہلے کی سیٹلائٹ تصاویر میں جوہری تنصیبات کے باہر بلڈوزر اور ٹرک کھڑے نظرآئے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں سے سینیٹری فیوجز یا حفاظتی سامان منتقل کیا جا رہا تھا۔

اے آر ایم ایس کنٹرول ایسوسی ایشن کے ماہر کیلی ڈیوین پورٹ کے مطابق ایران کے 60 فیصد افزودہ یورینیم کا پتہ لگانا مشکل ضرورہوگا لیکن ناممکن نہیں ہے، یہ چھوٹے کنستروں میں محفوظ ہے جو کارکے ذریعہ آسانی سے نقل و حمل کے قابل ہیں۔

واضح رہے کہ ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے یورینیم کوتقریباً 90 فیصد تک افزودہ کرنا ضروری ہوتا ہے، اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ 400 کلوگرام افزودہ یورینیم سے تقریباً 10 ایٹمی ہتھیار تیارکیے جا سکتے ہیں، اب اہم سوال یہ ہے کہ امریکا کے حملوں کے بعد یہ یورینیم کہاں ہے؟ کیا ایران نے اسے محفوظ مقام پرمنتقل کر دیا ہے یا یہ واقعی تباہ ہو چکا ہے؟ فی الحال اس کا واضح جواب کسی کے پاس نہیں۔

مزید دیکھیں

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button