
امریکی ماہرین نے جگر کی پیوندکاری کے بعد پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کی جلد شناخت کے لیے ایک غیر روایتی اور غیر تکلیف دہ بلڈ ٹیسٹ تیار کرلیا ہے، جو مہنگے اور پیچیدہ بائیوپسی ٹیسٹ کا متبادل ہو سکتا ہے۔
یہ تحقیق جارج ٹاؤن یونیورسٹی اور میڈ اسٹار ہیلتھ کے ماہرین نے مشترکہ طور پر کی ہے اور نتائج معروف جریدے نیچر کمیونیکیشنز میں شائع ہوئے۔
ماہرین کے مطابق نیا بلڈ ٹیسٹ جسم میں موجود مردہ خلیات سے خارج ہونے والے ڈی این اے کے ٹکڑوں کی میتھائلیشن پیٹرن کا تجزیہ کرتا ہے۔ یہ طریقہ یہ جانچنے میں مدد دیتا ہے کہ پیوند کیے گئے جگر یا مریض کے جسم کے کس عضو کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
تحقیق کے دوران 44 مریضوں سے پیوندکاری کے بعد مختلف اوقات میں 130 بلڈ سیمپلز لیے گئے، جن کے تجزیے سے یہ معلوم ہوا کہ سی ایف ڈی این اے کی مدد سے یہ پہچانا جا سکتا ہے کہ کون سی خلیاتی قسم متاثر ہو رہی ہے اور نقصان کا اصل ماخذ کیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ٹیسٹ خاص طور پر پیوندکاری کے بعد پہلے مہینے کے دوران پیش آنے والے خطرات کی درست نشاندہی میں مؤثر ثابت ہو سکتا ہے، جس سے مریض کے لیے بروقت اور موزوں علاج ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
مزید برآں، یہ بلڈ ٹیسٹ بار بار آسانی سے کیا جا سکتا ہے اور اس میں روایتی بائیوپسی کی طرح نمونہ لینے میں خطرہ یا درد نہیں ہوتا۔
ٹیم اس نئی ٹیکنالوجی کو دیگر اعضا کی پیوندکاری اور کینسر کے مریضوں میں بھی آزمانے کی تیاری کر رہی ہے، جب کہ اس کی بڑے پیمانے پر طبی آزمائش کے لیے فنڈنگ اور اجازت ناموں کا انتظار ہے۔