
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ٹیسلا و سپیس ایکس کے مالک ایلون مسک کے درمیان تعلقات شدید تناؤ کا شکار ہو گئے ہیں۔ دونوں شخصیات جو پہلے قریبی تعلقات رکھتی تھیں، اب ایک دوسرے پر سنگین الزامات عائد کر رہے ہیں۔
مسک نے صدر ٹرمپ کو بدنام زمانہ مجرم جیفری ایپسٹین کے ساتھ منسلک کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ٹرمپ کا نام ایپسٹین کی خفیہ فائلوں میں شامل ہے، جسے عوام کے سامنے لانے سے روکا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے صدر کے مواخذے کی بھی حمایت کی اور متبادل کے طور پر سینیٹر جے ڈی وینس کو صدر بنانے کی تجویز دی۔
دوسری جانب صدر ٹرمپ نے ایلون مسک کو منشیات کا عادی قرار دیا اور ان کی کمپنیوں کو دی جانے والی سرکاری سبسڈی اور معاہدے ختم کرنے کی دھمکی دی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اقدام بجٹ میں بچت کا آسان ذریعہ ہوگا۔
یہ جھگڑا اس وقت شروع ہوا جب ایلون نے سرکاری ملازمت سے قبل از وقت استعفیٰ دیا اور اس کے بعد سوشل میڈیا پر ترمپ کے لائے ہوئے ایک بل پر تنقید شروع کی۔ فریقین کی لفظی جنگ دونوں کے درمیان اختلافات کی خلیج کو گہرا کر رہی ہے۔ حالانکہ ایک ہفتہ قبل ٹرمپ نے ایلون مسک کے اعزاز میں اوول آفس میں الوداعیہ تقریب منعقد کی تھی۔
مسک نے استعفیٰ کے بعد صدر کے بڑے ٹیکس بل کو مکروہ اور قابل نفرت قرار دیا، جس پر ٹرمپ نے ردعمل میں کہا کہ مسک نے اس بل کو پہلے ہی جانچ لیا تھا، لہٰذا ان کا اعتراض بے بنیاد ہے۔ ٹرمپ نے الزام لگایا کہ مسک بل میں الیکٹرک گاڑیوں کی سبسڈی ختم ہونے سے ناراض ہیں۔
اس سیاسی اور ذاتی کشمکش کے اثرات معاشی میدان میں بھی دیکھے گئے۔ ٹیسلا کے شیئرز میں 14.3 فیصد کی کمی ہوئی، جس سے کمپنی کی مالیت میں تقریباً 150 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ سرمایہ کاروں نے حکومت کے ساتھ بگڑتے تعلقات کو اس تنزلی کی بڑی وجہ قرار دیا۔
ایلون مسک نے حکومتی معاہدوں کی منسوخی کی صورت میں سپیس ایکس کے خلائی مشن ڈریگن کو بند کرنے کی دھمکی دی، جو اس وقت امریکہ کا واحد خلاباز منتقل کرنے والا نظام ہے۔
ایلون مسک نے انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ مالی امداد بھی دی تھی اور کئی ریلیوں میں بھی شرکت کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ مدد نہ کرتے تو ٹرمپ 2024 کا انتخاب نہ جیت پاتے۔
ٹرمپ نے اس دعوے کو مسترد کیا اور دعویٰ کیا کہ وہ پنسلوینیا ہر حال میں جیت لیتے۔
یہ تنازع امریکا کے سیاسی، معاشی اور خلائی منصوبوں پر گہرے اثرات ڈال سکتا ہے، جس پر دنیا بھر کی نظریں مرکوز ہیں۔