0

جاوید میانداد نے شارجہ کا تاریخی چھکا کس کے ’’بلّے‘‘ سے مارا؟ حیران کن انکشاف

اسلام آباد:ایک روزہ کرکٹ میچوں کی تاریخ جاوید میانداد کے شارجہ میں لگائے گئے تاریخی چھکے کے بغیر نا مکمل ہے لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستانی لیجنڈ کرکٹر نے یہ چھکا کس کے بلے سے مارا تھا۔ون ڈے کرکٹ کا ذکر ہو اور 1986 میں بھارت کے خلاف آسٹریلیشیا کپ کے فائنل میچ کی آخری گیند پر جاوید میانداد کے لگائے جانے والے تاریخی چھکے کا ذکر نہ ہو یہ کیسے ممکن ہے۔ یہ ایسا میچ تھا جس نے کرکٹ کی تاریخ کا دھارا پلٹ دیا اور بھارت پر پاکستان کا ایسا رعب بیٹھا کہ آئندہ 15 برسوں پر ون ڈے میں قومی ٹیم کا اپنے روایتی حریف کے مقابل پلڑا بھاری رہا۔اپریل 1986 میں یہ تاریخی آسٹریلیشیا کپ کا فائنل صحرائی ملک شارجہ کے میدان میں روایتی حریفوں کے درمیان کھیلا گیا۔ پاکستان اب تک کوئی ون ڈے ٹورنامنٹ نہیں جیت سکا تھا جب کہ بھارت ایک روزہ کرکٹ کا اس وقت عالمی چمپئن تھا اور ایک سال قبل ہی 198 کے بینسن اینڈ ہیجز ورلڈ چیمپئن شپ کے فائنل میں پاکستان کو ہرایا تھا یوں وہ اس فائنل میں نفسیاتی برتری کے ساتھ اترا تھا لیکن میانداد کے آخری گیند پر لگائے جانے والے چھکے نے بھارت کا یہ ٹورنامنٹ جیتنے کا خواب چکنا چور کر دیا آج ہم آپ کو بتائیں گے کہ وہ بلا کس کا تھا جس سے میانداد نے تاریخی چھکا جڑ کر پاکستان کو پہلی بار کسی ون ڈے ٹورنامنٹ کا چیمپئن بنوایا۔کچھ عرصہ قبل منظر عام پر آنے والی سوئنگ کے سلطان وسیم اکرم کی خود نوشت ’’سلطان: اے میموئیر‘‘ میں سابق فاسٹ بولر نے انکشاف کیا کہ ہے 1986 میں جاوید میانداد نے جس بلے سے چھکا لگایا وہ ان کا یعنی وسیم اکرم کا تھا۔وسیم اکرم نے اس حوالے سے لکھا کہ ہے میچ کے سنسنی خیز مرحلے میں آخری اوور سے قبل میانداد کو لمبے بلیڈ والے بلے کی ضرورت محسوس ہوئی اور یہ بلا اس وقت وسیم اکرم کے پاس ہی تھا سو انہیں یہ بلا تھما دیا گیا۔سوئنگ کے سلطان نے آگے یہ بھی لکھا کہ ’’یہ بلا پھر مجھے واپس نہیں ملا، اب تو جاوید میانداد اسے 10 بار نیلام بھی کرچکے ہوں گے‘‘۔فائنل میں بھارت نے پاکستان کو جیت کے لیے 245 رنز کا ہدف دیا جس کے تعاقب میں مرد بحران جاوید میانداد میدان میں آخر تک ڈٹے رہے لیکن دیگر کھلاڑی ایک ایک کرکے ان کا ساتھ چھوڑتے گئے۔ تاہم میانداد نے ہمت نہ ہاری وہ بڑی مہارت اور دانائی سے رنز بٹورتے رہے، گیند باؤنڈری لائن سے پار تو کم ہی گئی لیکن انڈین فیلڈروں کو میانداد نے بہت بھگایا اور وکٹوں کے درمیان تیز دوڑ کر بہت سے رنز بنائے جس نے پاکستانیوں کو امید کی ڈور سے باندھے رکھا۔آخری پانچ اوورز میں 50، تین میں 31 اور آخری اوور میں 11 رنز درکار تھے۔ آج جب کرکٹ میں بہت زیادہ تیزی آ گئی ہے تب بھی اتنے رنز بنانا آسان نہیں لیکن آج سے 37 سال قبل تو یہ اور بھی محال تھا لیکن میانداد آہستہ آہستہ ہدف کی طرف بڑھتے گئے اور بات آخری وکٹ اور آخری گیند تک آن پہنچی۔اوور کی پانچویں گیند پر توصیف احمد نے جیسے تیسے کر کے ایک رن لے کر میانداد کو آخری گیند کھیلنے کا موقع فراہم کر دیا جس میں اظہر الدین کا بھی حصہ تھا جنہوں نے رن آوٹ کا آسان چانس مِس کیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں