145

اتحادی جماعتوں کا سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کے بائیکاٹ کا فیصلہ، نواز شریف نے بھی توثیق کر دی

لاہور: وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت حکومت میں شامل جماعتوں کے اجلاس میں ملک کی مجموعی صورتحال پر تفصیلی غور اور مستقبل کی حکمت عملی پر مشاورت کی گئی۔وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت حکومتی اتحادی جماعتوں کا اجلاس جاری ہوا جس میں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے التوا کے حوالے سے سپریم کورٹ کے بینچ اور ملکی سیاستی صورت حال پر غور کیا گیا۔حکومتی اتحادی جماعتوں کے اجلاس کے اعلامیے میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ملک بھر میں ایک ہی دن انتخاب ہونے چاہئیں، یہ غیر جانبدارانہ، شفاف اور آزادانہ انتخابات کے انعقاد کا بنیادی دستوری تقاضا ہے۔اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ایک ہی دن میں الیکشن سے انحراف ملک کو تباہ کن سیاسی بحران میں مبتلا کر دے گا، یہ صورت حال ملک کے معاشی مفادات پر خود کش حملے کے مترادف ہو گی۔اجلاس میں حکومت اور اتحادی جماعتوں نے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار بھی کیا اور مطالبہ کیا گیا کہ چار رکنی اکثریتی فیصلے کو مانتے ہوئے موجودہ عدالتی کارروائی ختم کی جائے۔حکومتی اتحادی جماعتوں کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اقلیت کے فیصلے کو اکثریت کے فیصلے پر مسلط کرنا چاہتے ہیں، جسٹس فائز عیسٰی کی سربراہی میں بینچ نے 184 تھری کے تمام مقدمات روکنے کا حکم دیا ہے، متضاد عدالتی فیصلوں سے ناقابل عمل اور پیچیدہ صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ جسٹس اعجاز الاحسن تو پہلے ہی رضا کارانہ طورپر بینچ سے الگ ہو چکے تھے، چیف جسٹس سپریم کورٹ کے بینچز سے اٹھنے والی اختلافی آوازوں کو سنیں، چیف جسٹس فی الفور فل کورٹ اجلاس کا انعقاد کرکے ون مین شو کا تاثر ختم کریں۔حکومتی اتحادی جماعتوں کے اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ 3 رکنی بینچ کے فیصلے کے ذریعے آئین کو ری رائٹ کیا گیا، اعلیٰ ترین عدالت کی سوچ میں تقسیم واضح نظر آرہی ہے، عدالت عظمیٰ کو متازع سیاسی فیصلے جاری کرنے سے احتراز کرنا چاہیے۔اجلاس کے اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف کے معاملے پر خصوصی امتیازی رویہ اپنانے کا تاثر ختم کیا جائے، سیاستدانوں کو مل کر بیٹھ کر فیصلے کرنے کی ہدایت کرنے والے خود تقسیم ہیں، انہیں اپنے اندر بھی اتحاد اور اتفاق پیدا کرنا چاہیے، قانون سازی سے انصاف کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کر دی گئی ہیں، امید ہے صدر مملکت اس قانون سازی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں گے۔اعلامیے کے مطابق اقلیتی فیصلہ مسلط کرنے کا طرز عمل آئین اور مروجہ قانون سے انحراف کی واضح مثال ہے، یہ طرز عمل ریاست کے اختیارات کی تقسیم کے بنیادی تصور کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے، ایک جماعت کے دباؤ پر سیاسی و آئینی بحران پیدا کرنے کی سازش قبول نہیں کی جائے گی، بدقسمتی سے ایک انتظامی معاملے کو سیاسی و آئینی بحران بنا دیاگیا ہے، خاص مقصد اور جماعت کو ریلیف دینے کی عجلت سیاسی ایجنڈا دکھائی دیتا ہے، سپریم کورٹ کو الیکشن کمیشن کے اختیار میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔اجلاس کی کہانی قبل ازیں اجلاس کے دوران وزیراعظم شہبازشریف نے دو صوبوں میں انتخابات ملتوی کرنے پر سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کی مجوزہ سماعت کے معاملے پر حکومتی تعاون سے متعلق مشورے کے لیے سابق وزیراعظم نواز شریف سے بذریعہ ویڈیو لنک رابطہ کیا۔نواز شریف نے مشورہ دیا کہ پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کو 3 رکنی بینچ کا بائیکاٹ کرنا چاہیے، 3رکنی بینچ سے انصاف کی کوئی توقع نہیں ہے کیونکہ 3رکنی بینچ میں ثاقب نثار زدہ لوگ شامل ہیں۔اجلاس میں مشاورتی گفتگو کے دوران یہ تجویز بھی سامنے آئی کہ اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہو کر3 رکنی بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کریں، اٹارنی جنرل کارروائی کے بائیکاٹ سے مطلع کر دیں، اٹارنی جنرل پیر کے روز 3 رکنی بینچ کی کارروائی کے بائیکاٹ سے سپریم کورٹ کو آگاہ کریں گے۔اجلاس میں سپریم کورٹ کے 3رکنی بینچ کے بائیکاٹ کے مشورے پی ڈی ایم کی قیادت سے بھی موصول ہوئے جن کی نوازشریف نے توثیق کر دی۔نواز شریف کا کہنا تھا بینچ کے بائیکاٹ کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے، سیاسی قیادت کے اکثریت کے مطالبے کے باوجود فل بینچ کا نہ بننا خاص ایجنڈے کی نشاندہی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں