
دنیا کے امیر ترین شخص اور ٹیسلا، سپیس ایکس، و سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس کے مالک ایلون مسک نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ وہ وفاقی حکومت کے ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی میں بطور خصوصی مشیر خدمات انجام دے رہے تھے۔
وائٹ ہاؤس نے بھی مسک کے استعفیٰ کی تصدیق کر دی ہے۔ ایلون مسک کی تعیناتی کی مدت 130 دن تھی جو 30 مئی کو مکمل ہونی تھی، تاہم انہوں نے دو دن قبل ہی عہدہ چھوڑ دیا۔
ایلون مسک نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کہا کہ خصوصی سرکاری ملازم کے طور پر میری مقررہ مدت مکمل ہو چکی ہے۔ میں صدر ٹرمپ کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے فضول اخراجات کم کرنے کا موقع دیا۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی کا یہ مشن وقت کے ساتھ حکومت کا ایک طرزِ زندگی بن جائے گا۔
ان کے استعفیٰ کی وجہ ٹرمپ کے ٹیکس بل پر اختلاف، حکومتی اصلاحات کی راہ میں رکاوٹیں، اور واشنگٹن کی بیوروکریسی سے مایوسی بتائی جا رہی ہے۔ ایلون مسک نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ ڈی سی کی صورت حال ان کی توقعات سے کہیں بدتر ہے اور بہتری کی کوششیں ایک مشکل جنگ ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مسک نے استعفیٰ سے قبل صدر ٹرمپ سے براہ راست بات نہیں کی۔ یہ فیصلہ انتظامیہ کے سینیئر سٹاف کی سطح پر کیا گیا۔ ایلون مسک کی سیاست سے حالیہ مایوسی کی ایک وجہ وسکونسن میں ان کے حمایت یافتہ عدالتی امیدوار کی شکست بھی تھی، جس پر انہوں نے ڈھائی کروڑ ڈالر خرچ کیے تھے۔
مسک نے کابینہ کے بعض اعلیٰ حکام سے اختلافات کے علاوہ تجارتی مشیر کو بھی بیوقوف قرار دیا تھا، کیونکہ انہوں نے مسک امریکہ-یورپ زیرو ٹیرف تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔
مسک نے وائٹ ہاؤس سے ابوظبی اور اوپن اے آئی کے معاہدے پر بھی ناراضی ظاہر کی، جس میں ان کی کمپنی شامل نہیں کی گئی۔
رائٹرز کے جائزے کے مطابق، ٹرمپ اور ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی کے تحت وفاقی سول ورک فورس سے 12 فیصد یعنی 2 لاکھ 60 ہزار ملازمین کو برطرف یا ریٹائرمنٹ کی پیشکش کے ذریعے ہٹایا جا چکا ہے۔