0

پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کا بلے کا انتخابی نشان بحال کردیا

پشاور: ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی انٹرا پارتی الیکشن اور انتخابی نشان کیس پر سماعت میں دلائل سننے کے بعد الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا، جس کے بعد پی ٹی آئی کو بلے کا انتخابی نشان واپس مل گیا۔کیس کی سماعت پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس اعجاز انور اور جسٹس سید ارشد علی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے کی، جس میں تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن پر اعتراض کرنے والے فریقین کے وکلا نے دلائل دیے۔ قبل ازیں پی ٹی آئی اور الیکشن کمیشن کے وکلا نےگزشتہ روز اپنے دلائل مکمل کرلیے تھے۔دوران سماعت قاضی جاوید ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل میں کہا کہ میرے موکل پی ٹی آئی کے سابقہ ضلعی جنرل سیکرٹری رہے ہیں، جنہیں میڈیا سے پتا چلا کہ انٹرا پارٹی انتخابات ہورہے ہیں۔ وہ الیکشن میں حصہ لینا چاہتے تھے لیکن ان کو موقع نہیں دیا گیا۔جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ آپ نے یہ نہیں کہا کہ انٹرا پارٹی الیکشن دوبارہ کرائے جائیں۔ الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دیا تو آپ کو چاہیے تھا کہ دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کرتے۔ آپ اگر پارٹی سے تھے تو پارٹی نشان واپس لینے پر آپ کو اعتراض کرنا چاہیے تھا آپ نے نہیں کیا، جس پر قاضی جواد نے کہا کہ ہمیں تو انتخابات میں موقع نہیں دیا گیا اس کے خلاف الیکشن کمیشن گئے۔قاضی جاوید ایڈووکیٹ نے کہا کہ انٹرا پارٹی انتخابات پورے ملک کے لیے ہے، ہائیکورٹ صرف صوبے کو دیکھ سکتا ہے، جس پر جسٹس ارشد علی نے استفسار کیا کہ کیا ہر صوبے میں الگ الگ کیس کرنا چاہیے تھا ان کو؟۔ انٹرا پارٹی الیکشن پشاور میں ہوا تو یہاں پر کیسے کیس نہیں کرسکتے؟۔ جسٹس اعجاز انور نے پوچھا کہ جو الیکشن ہوئے اس میں تمام ارکان منتخب ہوئے یا صرف صوبے کی حد تک؟، جس پر قاضی جاوید ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ پورے ملک کے نمائندے منتخب ہوئے۔جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ یہاں پر الیکشن ہوا ہے اور الیکشن کمیشن نے اس کو کالعدم قرار دیا ہے۔ انٹرا پارٹی الیکشن پشاور میں ہوا ہے تو اس کو یہاں کیوں چیلنج نہیں کیا جاسکتا، جس پر قاضی جواد ایڈووکیٹ نے کہا کہ دائرہ اختیار کے حوالے سے عدالتوں کے فیصلےموجود ہیں، یہ تو لاہور ہائیکورٹ بھی گئے تھے وہاں پر ان کی درخواست خارج ہوئی۔ جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ نے آرڈر میں لکھا ہے کہ پشاور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں یہ کیس زیرسماعت ہے پشاور ہائیکورٹ کو فیصلہ کرنے دیں۔دوران سماعت وکیلِ شکایت کنندہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ پی ٹی آئی لیول پلیئنگ فیلڈ کی بات کررہی ہے تو اپنے کارکنوں کو بھی یہ فیلڈ دے۔ پارٹی کے کارکنوں کو پتا نہیں تھا کہ الیکشن کہاں پر ہیں۔ پھر ایک بلبلہ اٹھا اور انٹرا پارٹی الیکشن ہواجسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے کہ پھر وہ بلبلہ بھی پھٹ گیا۔یہاں پر کبھی کون تو کبھی کون لاڈلا بن جاتا ہے۔ آپ سیاسی باتیں نہ کریں قانونی نقطے پر آ جائیں۔ آپ بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ انٹراپارٹی الیکشن ٹھیک نہیں ہوئے، ان سے نشان واپس لینا ٹھیک ہے۔ وکیل نے کہا کہ جو پارٹی قانون کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کراسکتی تو اس کو کیوں سپورٹ کروں؟۔انتخابی نشان بدلتے رہتے ہیں، ہر الیکشن کے لیے نیا نشان بھی دیا جاسکتا ہے۔بعد ازاں کیس میں فریق چارسدہ کے جہانگیر کے وکیل نوید اختر نے اپنے دلائل میں کہا کہ میرا موکل ضلعی صدر رہ چکا ہے، ایک بیان پر جہانگیر کو پارٹی سے فارغ کردیا گیا۔ آئین کے مطابق عہدیداروں کو منتخب نہیں کیا گیا جو لازمی ہے۔ عہدیداروں کی اپڈیٹڈ فہرست الیکشن کمیشن کو دینی ہوتی ہے۔ انتخابی نشان بھی سیاسی پارٹی کو اس کی کریڈیبلٹی کے مطابق دیا جاتا ہے۔ پارٹی کے آئین اور ووٹر کے تحفظ کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔عدالت کی جانب سے وقفے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو جسٹس ارشد علی نے استفسار کیا کہ انٹرا پارٹی انتخابات پر جرمانہ ہوسکتا ہے، کیا الیکشن کمیشن نے یہ کارروائی کی ہے، جس پر وکیل نے کہا نہیں، الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ 215 کے تحت کارروائی کی ہے۔ جسٹس ارشد علی نے ریمارکس دیے کہ اس سیکشن میں تو انٹرا پارٹی انتخابات کی بات نہیں ہے۔ عدالت نے کہا کہ 209 کی اگر خلاف ورزی ہو تب ہوسکتا ہے 208 پر تو 215 کے تحت کارروائی نہیں ہوسکتی۔ سیکشن 209 کہتا ہے رزلٹ 7 دن کے اندر کمیشن میں جمع کیے جائیں، انہوں نے تو رزلٹ 7 دن کے اندر جمع کیے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں