0

2050 تک مصنوعی گوشت کی طلب 40 فیصد تک پہنچ جائے گی، ماہرین

کراچی: بین الاقوامی سائنس دانوں نے مختلف ذرائع سے گوشت کو مصنوعی طریقے سے تیار کرلیا۔تفصیلات کے مطابق دنیا بھر میں گوشت خوری کا رجحان بڑھتا جارہا ہے جس کی ضروریات پورا کرنے کےلیے صرف مویشیوں کی پیداوار اور افزائش میں اضافہ کرنا ناکافی ہے اس بحران سے نمٹنے کے لیے سائنس دانوں نے مختلف ذرائع سے گوشت کو مصنوعی طریقے سے تیار کرلیا۔اس حوالے سے جامعہ کراچی کے شعبہ فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی،الغزالی یونیورسٹی اور حلال فاؤنڈیشن کے اشتراک سے جمعرات کے روز ایک روزہ بین الاقوامی سیمینار بعنوان: ”لیب میں تیارکردہ گوشت اور گوشت کی صنعت کا مستقبل“ شعبہ فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی جامعہ کراچی کی سماعت گاہ میں منعقد ہواسیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نےکہا کہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے گوشت کی طلب میں بھی اضافہ ہورہاہے جس کے حصول کے ذرائع کو بھی اسی تناسب سے بروئے کارلانا پڑے گا۔ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر سال 364 ملین ٹن گوشت کام میں لایاجاتاہے جس میں 143 ملین ٹن مرغی کاگوشت،76 ملین ٹن گائے کا گوشت جبکہ 17 ملین ٹن بکرے کا گوشت شامل ہے۔جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر گھنٹے میں تقریباً 24 ہزار جانوروں کو ذبح کیاجاتاہے یا بغیر ذبح کے کام میں لایاجاتاہے اور سالانہ 75 ارب جانورذبح کئے جاتے ہیں جبکہ مستقبل یعنی 2050 ء تک یہ تعداد 455 ملین ٹن تک پہنچ جائے گی۔مقررین نے شرکاء کو بتایا کہ اگرچہ گوشت کے حصول کے ذرائع جانوراور پرند ہیں اور طلب میں اضافے کی بناء پر چاہیئے تو یہ تھا کہ جانوروں اور پرندوں کی پیداوار بڑھائی جاتی مگر ماہرین کی نظر میں گوشت کے مذکورہ ذرائع نہ صرف مہنگے بلکہ ماحولیات کے حوالے سے نقصان دہ تھے جس کی وجہ سے انہیں مصنوعی گوشت کی پیداوار کی طرف جانا پڑرہا ہے۔ زمین کا 30 فیصدحصہ جانوروں کی پیدوار،33 فیصداس کی خوراک جبکہ 26 فیصدچراگاہوں کے لئے استعمال ہوتاہے۔مصنوعی گوشت فوڈ انڈسٹری کی ایک نئی ایجادہے جس نے اس دنیا میں قدم رکھتے ہی بڑے بڑے سرمایہ کاروں کو اپنی طرف متوجہ کرلیاہے۔فوڈ اور سائنس کی بڑی بڑی کمپنیاں اس پر ریسرچ بڑھارہی ہیں۔نامور ادارے اور دلچسپی رکھنے والے حضرات اس پر سرمایہ کاری کررہے ہیں۔مصنوعی گوشت جس مقصدکے لئے تیارکیاجارہاہے وہ پوراہویانہ ہو مگر بہت سی دنیا اس کو عام مارکیٹ میں دیکھنا چاہتی ہے اورامریکا میں 2022 ء میں اس کی خرید وفروخت کی اجازت بھی دی جا چکی ہے۔ شعبہ فوڈ سائنسز کے پروفیسر غفران نے کہا کہ خلائی آپریشنز میں غذا کی فراہمی یقینی بنانے کے لیےسب سے پہلے مصنوعی گوشت امریکا نے بنایا جسے دیکھ کر دیگر ممالک نے بھی تحقیق کی۔ پہلا بیف برگر جس کی قیمت 20 ہزار ڈالر تھی اور اب سنگاپور میں 1 پاؤنڈ کا فروخت ہو رہا ہے۔وہ وقت دور نہیں کہ کھایا جانے والا گوشت درختوں پر کاشت ہو گا اور دیگر پھلوں کی طرح اسے بھی کاٹ کر پکایا جانے لگے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ تحقیق کے مطابق 2025 میں لیب گرون میٹ 5 فیصد جگہ کور کرے گا 2030 میں 10 فیصد ڈمانڈ ہوگی اور 2040 سے 2050 تک 30سے 40فیصد مصنوعی گوشت اصلی گوشت کی جگہ لے لے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ امریکا میں سو ایسی کمپنیاں ہیں جو لیب گرون میٹ کی تیاری کے لیے لائسنس اپلائی کیے ہوئے ہیں جیسے ہی امریکا کو اجازت ملے گی اس کے بعد ہر جگہ لیب گرون میٹ کا چرچا ہوگا۔ا جانور سے اسٹیم سیل نکال کر سیرم میں 6 ہفتوں تک رکھتے ہیں جس میں سیل کی افزائش ہوتی رہتی ہے اس طرح گوشت کی پیٹی بن جاتی ہے۔ لیب گرون میٹ کے بارے میں کہا کہ شریعت کے اسکالرز کو اس سے آگاہی ہونی چاہیئے، ہمیں ایسے علماء کی ضرورت ہے جو اس پر مزید تحقیق کریں۔ بعض مراحل حلال ہیں بعض حرام ہیں ان کی نشاندہی کرنا ضروری ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں