
اقوام متحدہ نے پاکستان سے اپیل کی ہے کہ مشرقی افغانستان میں حالیہ زلزلے کے بعد افغان پناہ گزینوں کی بڑے پیمانے پر بے دخلی کو فوری طور پر روک دیا جائے۔ یہ مطالبہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب زلزلے میں ہلاکتوں کی تعداد 1,457 تک پہنچ چکی ہے اور تقریباً 3,400 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ طالبان انتظامیہ کے مطابق 6,700 سے زائد گھر تباہ ہو گئے جبکہ کئی دیہات مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں۔
یو این ایچ سی آر کے سربراہ فلپو گرانڈی نے ایک پیغام میں کہا کہ موجودہ حالات کے پیش نظر پاکستان کو افغان پناہ گزینوں کی واپسی کے منصوبے پر عمل درآمد عارضی طور پر روک دینا چاہیے۔ اقوام متحدہ کے مطابق رواں سال اب تک 4 لاکھ 43 ہزار افغان پاکستان چھوڑ کر واپس جا چکے ہیں، جبکہ 2023 سے مجموعی طور پر 12 لاکھ سے زائد افراد سرحد پار کر چکے ہیں۔
چمن اور طورخم بارڈرز پر روزانہ ہزاروں افراد افغانستان واپس جا رہے ہیں۔ مقامی حکام کے مطابق 31 اگست کے بعد سے اسپن بولدک کے راستے 250 سے 300 خاندان روزانہ واپس جا رہے ہیں، جبکہ صرف ایک دن میں طورخم سے 6 ہزار سے زائد پی او آر کارڈ ہولڈرز افغانستان داخل ہوئے۔
زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن جاری ہیں۔ کمانڈوز کو ایسے مقامات پر اتارا گیا جہاں ہیلی کاپٹر اتر نہیں سکتے تھے تاکہ ملبے تلے دبے افراد کو نکالا جا سکے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام نے خبردار کیا ہے کہ فنڈز کی کمی کے باعث صرف چار ہفتوں تک متاثرین کو خوراک فراہم کی جا سکے گی۔
افغانستان کے کنڑ، ننگرہار اور لغمان صوبوں میں سب سے زیادہ نقصانات ہوئے ہیں۔ ملبے تلے دبے افراد کو نکالنے کی کوششوں کے دوران زندہ بچ جانے والے اپنے پیاروں کی لاشیں بانس اور رسی کی چارپائیوں پر اٹھاتے اور کدالوں سے قبریں کھودتے نظر آئے۔ پہاڑی علاقوں میں مسلسل جھٹکوں اور پتھروں کے گرنے کے سبب امدادی کام مزید مشکل ہو گیا ہے۔
پاکستانی حکومت نے زلزلہ متاثرین کے لیے امدادی سامان روانہ کیا ہے اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے افغان ہم منصب کو یقین دلایا ہے کہ پاکستان مشکل کی اس گھڑی میں افغان عوام کے ساتھ کھڑا ہے۔