
ایک نئی امریکی تحقیق میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ اٹینشن ڈیفیسٹ ہائپر ایکٹیویٹی ڈس آرڈر (اے ڈی ایچ ڈی) میں مبتلا بچوں کے علاج سے ان میں نفسیاتی مسائل پیدا ہونے کا کوئی خطرہ نہیں۔ 2016 سے 2018 کے دوران کی گئی اس تحقیق میں 6 سے 9 سال کی عمر کے 5 ہزار بچوں کا تجزیہ کیا گیا تاکہ ادویات کے ممکنہ نفسیاتی اثرات کا جائزہ لیا جا سکے۔
ماہرین نے پایا کہ اے ڈی ایچ ڈی کی دوا لینے والے بچوں میں نہ صرف نفسیاتی مسائل میں اضافہ نہیں ہوا بلکہ بعض کیسز میں ان کی حالت میں بہتری دیکھی گئی۔ اس تحقیق کے نتائج ماضی کے ان خدشات کے برخلاف ہیں جن میں بعض ماہرین نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ ادویات بچوں کی ذہنی صحت پر منفی اثر ڈال سکتی ہیں۔
مطالعے کے مطابق، اگر علاج نہ کیا جائے تو اے ڈی ایچ ڈی کے شکار بچوں میں نفسیاتی مسائل بڑھ سکتے ہیں۔ تاہم، مناسب اور بروقت علاج سے نہ صرف علامات کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے بلکہ ذہنی صحت کے مسائل سے بچاؤ بھی ممکن ہے۔
اے ڈی ایچ ڈی ایک اعصابی کیفیت ہے جس میں متاثرہ بچے توجہ مرکوز کرنے، خود کو قابو میں رکھنے اور سکون سے بیٹھنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں۔ یہ کیفیت اکثر بے چینی اور یادداشت کی کمزوری سے جُڑی ہوتی ہے، لیکن اسے دماغی بیماری کے بجائے ترقیاتی عارضہ تصور کیا جاتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ تحقیق کے نتائج والدین اور معالجین کے لیے اطمینان بخش ہیں کیونکہ یہ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اے ڈی ایچ ڈی کے علاج کے دوران نفسیاتی اثرات کی سنگین تشویش کی ضرورت نہیں۔ تاہم، ماہرین نے اس بات پر زور دیا کہ ہر بچے کا علاج اس کی انفرادی کیفیت کے مطابق ہونا چاہیے تاکہ زیادہ مؤثر نتائج حاصل کیے جا سکیں۔
یہ تحقیق اے ڈی ایچ ڈی سے متعلق معاشرتی بدگمانیوں کے خاتمے میں مدد دے سکتی ہے اور علاج سے گریز کے رجحان کو کم کر سکتی ہے، جو اکثر والدین کی تشویش کا باعث بنتا ہے۔