0

تیل کے مختلف استعمال اور طبی فوائد

انسان زمانہ قدیم کا ہو یا جدید ترقی یافتہ دور میں زندگی گزارنے والا، اسے اپنی صحت کے قیام اور بحالی کے بہت سے طریقے اپنانے پڑتے ہیں۔انسانی صحت و تن درستی کا دارومدارعمدہ ماحول، بہترین آب وہوا، فطری طرز بود وباش، متوازن ومعیاری خوراک اور تعمیری معمولات پر ہوتاہے۔ متوازن خوراک میں اناج، پھل، سبزیاں ترکاریاں اور بیج یا بیجوں کے تیل شامل ہیں۔تیل انسانی بدن کی خوبصورتی ملائمت اور تراوت کالازمی حصہ ہیں۔ مختلف اقسام کے تیل ہماری روز مرہ خوراک کا حصہ بھی ہوتے ہیں۔ہمارے گھروں میں کھانا بناتے وقت کوکنگ آئل، بناسپتی یا دیسی گھی، سرسوں کا تیل یا زیتون کے تیل میں سے کوئی ایک لازمی استعمال کیا جاتا ہے۔زمانہ قدیم میں سمجھدار معالجین مختلف امراض سے چھٹکارا پانے کے لیے مختلف تیلوں سے بدن پر مالش کرواتے تھے۔ جسمانی و اعصابی دردوں کمر درد، چوٹ، موچ اور گھنٹیا سے نجات دلانے کے لیے تلوں کا تیل، روغن زیتون اور کئی دوسرے تیل بڑے اعتماد سے استعمال کرائے جاتے تھے۔موجودہ دور میں خون گاڑھا ہونے سے پیدا ہونے والی بیماریاں جیسے امراض قلب، کولیسٹرول، یورک ایسڈ، ذیابیطس، امراض گردہ، جگر کی بیماریوں اور فالج، برین ہیمریج وغیرہ مسلط ہونے کے ڈر سے معالجین قدرتی تیل کے استعمال کا مشورہ دینے لگے ہیں۔تیلوں میں چکنائی پائی جاتی ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق چکنائیاں دوقسم کی ہوتی ہیں۔ ایک مفید چکنائی دوسری مضر چکنائی۔ مفید چکنائی انسانی بدن کی حرارت سے پگھل جاتی ہے جسے ’انسیچوریٹیڈ فیٹس‘ کہاجاتا ہے۔دوسری مضر صحت چکنائی کو ’سیچوریٹیڈ فیٹ‘ کہا جاتا ہے۔ دیسی گھی، سرسوں، زیتون، مونگ پھلی، بادام اورسویابین وغیرہ کا تیل انسانی صحت کے لیے مفید خوردنی تیل سمجھے جاتے ہیں۔ جبکہ ناریل اور سورج مکھی وغیرہ کے تیل سیچوریٹیڈ فیٹس ہونے کے سبب کسی حد تک مضر صحت خیال کیے جاتے ہیں۔دیسی گھی سے متعلق ایک تو جدید طب سے وابستہ معالجین نے غلط فہمیاں بہت زیادہ پھیلا دی ہیں، دوسرے دیسی گھی خاصا مہنگا بھی ہے۔ عام آدمی کی قوت خرید سے ہی دور ہے۔ دیسی گھی دماغی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے، بدن کو فربہ اور خوبصورت بنانے اور قوت مدافعت بڑھانے کا بہترین قدرتی ذریعہ ہے۔دیسی گھی وٹامن ڈی کا بہترین قدرتی ماخذ بھی ہے۔ ایسے بچے جن کی جسامت کمزور ہو، مناسب نشوونما نہ ہو رہی ہو تو بچے کے بدن پر دیسی گھی کی مالش کرکے تھوڑی دیر ’سن باتھ‘ یعنی دھوپ میں لٹانے سے بچے کی نشوونما میں بہتری اور جسامت میں مضبوطی آنے لگتی ہے۔اسی طرح زیتون کا تیل بھی ہمارے ملک کی پیداوار نہ ہونے کے باعث مہنگا پڑتا ہے اور اس کے خالص ہونے پر بھی سوالیہ نشان اپنی جگہ ہے۔ منافع خور تاجر مبینہ طور پر عام کوکنگ آئل کو ہی زیتون کی خوشبو اور رنگ دے کر فروخت کرنے میں مصروف ہیں۔بدنصیبی ہے کہ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود ہماری مقامی اجناس جیسے سرسوں، مونگ پھلی، مکئی، سورج مکھی وغیرہ کی کاشت اپنی ضرورت سے بہت کم ہے۔حالیہ شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ہم اپنی ضرورت کا 75 فیصد خوردنی تیل بیرون ممالک سے درآمد اور صرف 25 فیصد تک مقامی تیل استعمال کرپاتے ہیں۔ حالانکہ ایک زرعی ملک ہونے کے ساتھ ساتھ سرسوں، سویابین، مکئی، سورج مکھی اور مونگ پھلی وغیرہ کی کاشت کے لیے ہماری زمینیں اور آب وہوا بھی موزوں ہے۔

کیٹاگری میں : صحت

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں