102

سپریم کورٹ ججز کے نئے فیصلوں سے عدالتی بحران شدید ہونے کا خدشہ

اسلام آباد:پاکستان کے دو سینئر ترین ججوں کے دو حالیہ اقدامات کے باعث عدالتِ عظمیٰ (سپریم کورٹ آف پاکستان) میں چل رہا بحران مزید گہرا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کا معاملہ پیر کو سماعت کے لیے مقرر کردیا ہے۔جبکہ جسٹس فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے چھ رکنی بینچ کی تشکیل پر سوال اٹھاتے ہوئے اسے خلاف آئین قرار دے دیا ہے۔ان کا نوٹ سپریم کورٹ آف پاکستان کی ویب سائٹ پر جاری ہوا لیکن اسے فوراً ہٹا لیا گیا۔انہی معاملات سے جڑی ایک پیش رفت میں، خیبرپختونخوا بار کونسل نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے، جبکہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سپریم جج کی حمایت میں کھڑی ہوگئی ہے۔ان تمام معاملات کے درمیان پی ٹی آئی نے احتساب ریفرنسز میں وزیر اعظم شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز شریف کی بریت کو کالعدم قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔جسٹس فائزعیسیٰ کے خلاف کیوریٹو ریویو ریفرنس عمران خان کے دورِ حکومت میں دائر کیا گیا تھا۔اس وقت سپریم کورٹ نے جسٹس عیسیٰ اور ان کے خاندان کے خلاف ایک ریفرنس خارج کیا تھا جس کے بعد عمران خان کی حکومت نے 2021 میں کیوریٹو ریویو ریفرنس دائر کیا۔عمران خان کو اپریل 2022 میں معزول کر دیا گیا تھا، لیکن شہباز شریف انتظامیہ جسٹس فائز کے خلاف ریفرنس واپس لینا بھول گئی اور گزشتہ ہفتے ہی ایکشن میں یہ کہتے ہوئے کود پڑی کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس اس لئے واپس لے لیا جائے گا کیونکہ یہ ”عمران نیازی کی طرف سے ایک منصف مزاج جج کے خلاف جو آئین اور قانون کی راہ پر گامزن ہے، انتقامی کارروائی تھی، جو (عمران خان) ایک انتقامی شخص تھا۔“اور یوں حکومت نے کیوریٹیو ریویو ریفرنس کو واپس لینے کے لیے درخواست دائر کردی۔ہفتہ کو چیف جسٹس نے شہباز حکومت کی درخواست 10 اپریل کو ان چیمبر سماعت کے لیے مقرر کی۔ انہوں نے اسی دن ایک اور متعلقہ معاملہ بھی سماعت کے لئے مقرر کیا ہے۔جب عمران خان کی حکومت نے 2021 میں کیوریٹو ریویو دائر کیا تو سپریم کورٹ نے اس کے خلاف کچھ اعتراضات اٹھائے اور حکومت نے اعتراض کے خلاف اپیل دائر کی۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال پیر کو اس اپیل پر بھی ان کیمرہ سماعت کریں گے۔یہ فیصلہ چیف جسٹس کی جانب سے جسٹس عیسیٰ کی طرف سے ازخود اختیارات کے ضرورت سے زیادہ استعمال کے خلاف دیے گئے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کیلئے بنائے گئے چھ رکنی بینچ کے کچھ دن بعد ہی سامنے آیا ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس محمد علی مظاہر، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس سید حسن اظہر رضوی پر مشتمل بینچ منگل کو تشکیل دیا گیا تھا اور اس بینچ نے مختصر سماعت کے بعد ازخود نوٹس کے بعد ازخود اختیارات کے خلاف فیصلہ واپس لے لیا تھا۔چھ رکنی بینچ نے اُس کیس کی سماعت کرتے ہوئے فیصلہ تبدیل کیا جس کی اصل سماعت جسٹس عیسیٰ اور جسٹس امین الدین خان نے کی تھی۔جسٹس فائز عیسیٰ نے ہفتے کے روز اسی کیس میں ایک نوٹ جاری کرتے ہوئے قرار دیا کہ چھ رکنی بینچ کی تشکیل غیر قانونی اور آئین کے خلاف ہے۔جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ رجسٹرار عشرت علی، جنہوں نے منگل 3 اپریل کو روسٹر جاری کیا تھا، کو وفاقی کابینہ نے 3 اپریل کو پہلے ہی ہٹا دیا تھا کیونکہ انہوں نے اس سے قبل جسٹس عیسیٰ اور جسٹس امین الدین کی جانب سے ازخود نوٹس کے بارے میں دیے گئے فیصلے کو غیر قانونی طور پر تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی۔جسٹس عیسیٰ کے نوٹ میں کہا گیا ہے کہ چھ رکنی بینچ کی تشکیل سے ثابت ہوا کہ رجسٹرار کا 29 مارچ کو جاری کردہ سرکلر غیر قانونی تھا۔نوٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کی بینچ کے خلاف کسی بھی اپیل کی سماعت دوسری اور بالکل مختلف بینچ نہیں کر سکتی۔نوٹ میں کہا گیا کہ اس کے علاوہ، بینچ نے معمول کے خلاف بزنس چلایا اور پارٹی کو نوٹس جاری کرنے میں ناکام رہا۔نوٹ میں جسٹس فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ چھ رکنی بینچ نے 4 اپریل کو جو فیصلہ سنایا اس کی کوئی آئینی حیثیت نہیں ہے۔نوٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کے لیے استعمال ہونے والے الفاظ ’ماسٹر آف رولز‘ آئین میں نہیں ہیں۔جسٹس عیسیٰ کی جانب سے جاری کردہ نوٹ ہفتہ کی شام سپریم کورٹ آف پاکستان کی ویب سائٹ supremecourt.gov.pk پر اردو اور انگریزی میں شائع کیا گیا۔لیکن، اسے بغیر کسی وضاحت کے فوراً ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا۔شدید ہوتے عدالتی بحران کی ایک اور علامت کے طور پر کے پی بار کونسل نے ہفتے کے روز ایک بیان جاری کیا، جس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے ملک کے اعلیٰ ترین جج کے عہدے سے سبکدوش ہونے پر زور دیا گیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں