
فلم دی وائس آف ہند رجب کی وینس میں تاریخی پذیرائی
وینس فلم فیسٹیول میں فلسطینی بچی ہند رجب کی کہانی پر مبنی دستاویزی فلم ’دی وائس آف ہند رجب‘ نے شائقین کو اشکبار کر دیا۔ بدھ کو ہونے والے پریمیئر پر حاضرین نے 23 منٹ تک کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں، جو اس سال کے فیسٹیول کا سب سے طویل خراجِ تحسین قرار دیا جا رہا ہے۔ اس دوران حاضرین نے ’’فری، فری فلسطین‘‘ کے نعرے بھی لگائے۔
فلم چھ سالہ ہند رجب کے المیے پر مبنی ہے جو جنوری 2024 میں غزہ میں ایک کار میں محصور ہو گئی تھی۔ اس کی خالہ، ماموں اور تین کزن اسرائیلی فائرنگ میں جاں بحق ہو چکے تھے جبکہ ہند کئی گھنٹوں تک فلسطینی ہلالِ احمر کے ڈسپیچرز سے فون پر مدد مانگتی رہی۔ ریکارڈنگز میں بچی کی آواز سنی جا سکتی ہے جس میں وہ کہتی ہے: ’’میں بہت ڈری ہوئی ہوں، پلیز آ جائیں۔‘‘
تقریباً تین گھنٹے بعد ہلالِ احمر کو ایمبولینس بھیجنے کی اجازت ملی، لیکن ایمبولینس پہنچنے کے فوراً بعد رابطہ منقطع ہو گیا۔ چند روز بعد ہند کی لاش کار سے برآمد ہوئی جبکہ دو ایمبولینس اہلکار بھی اپنی تباہ شدہ گاڑی میں جاں بحق پائے گئے۔ اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ نے بعد ازاں تصدیق کی کہ گاڑی پر اسرائیلی فوج نے قریب سے فائرنگ کی تھی۔
فلم کی ہدایت کارہ کوثر بن ہانیہ کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے پہلی بار ہند کی آواز سنی تو یہ صرف ایک بچی کی فریاد نہیں بلکہ پورے غزہ کی آواز تھی۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں یہ تاثر دینا کہ غزہ کے متاثرین ’’کولیٹرل ڈیمیج‘‘ ہیں، ایک غیر انسانی سوچ ہے، اور فن کا مقصد ان لوگوں کو پہچان دینا ہے۔
فلم کو ہالی ووڈ کے بڑے اداکاروں کی حمایت بھی حاصل ہے، جن میں جوکین فینکس، رونی مارا اور بریڈ پٹ شامل ہیں۔ ناقدین کے مطابق یہ فلم ’’گولڈن لائن‘‘ ایوارڈ کی مضبوط امیدوار بن گئی ہے جس کا اعلان 6 ستمبر کو ہوگا۔
دریں اثنا، دنیا کی سب سے بڑی ماہرینِ نسل کشی کی انجمن نے قرار دیا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کے اقدامات قانونی طور پر نسل کشی کے زمرے میں آتے ہیں، تاہم اسرائیل ان الزامات کی تردید کرتا ہے اور معاملے کو تاحال ’’زیرِ تحقیقات‘‘ قرار دیتا ہے۔