
خلائی جہازوں کی لانچنگ سے فضائی آلودگی میں اضافہ، ماہرین نے عالمی برادری کو خبردار کر دیا
ماہرین نے خلائی جہازوں اور راکٹ لانچنگ کے باعث پیدا ہونے والی فضائی آلودگی کے خطرناک نتائج پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یونیورسٹی کالج لندن کی پروفیسر ایلوئیس ماریس اور ان کی ٹیم نے بتایا ہے کہ راکٹ لانچز سے خارج ہونے والے ذرات خاص طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح میں خطرناک حد تک اضافہ کر رہے ہیں، جو ماحول اور موسمیاتی نظام کے لیے سنگین خطرہ بن رہے ہیں۔
2024 میں 259 اور 2023 میں 223 راکٹ لانچز ریکارڈ کیے گئے، جن میں مجموعی طور پر 153,000 ٹن سے زائد ایندھن جلایا گیا۔ یہ ذرات اسٹراٹوسفیئر میں داخل ہو کر زمین کی سطح پر موجود آلودگی سے 500 گنا زیادہ گرمی پیدا کرتے ہیں، جس سے گلوبل وارمنگ کے اثرات مزید شدید ہو سکتے ہیں۔
خصوصی طور پر "mega-constellations” جیسے ون ویب، اسٹار لنک اور تھاؤزینڈ سیلز نے فضائی آلودگی میں تین گنا اضافہ کر دیا ہے۔ ماہرین نے فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن (FAA) کے ماحولیاتی جائزے کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس مسئلے کا فوری اور جامع حل ضروری ہے۔
ماحولیاتی ماہرین نے مارچ 2023 کے بعد سے بڑھتی ہوئی راکٹ لانچز کو اوزون لیئر کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔ 2024 میں 2,500 سے زائد سپیس آبجیکٹس فضا میں داخل ہوئے، جن سے اوزون کی پرت پر دھاتی ذرات کا اثر بڑھ سکتا ہے۔ اس حوالے سے Alumina particles کی مقدار آئندہ دہائیوں میں 650 فیصد تک بڑھنے کا خدشہ ہے، جو اوزون کے خاتمے میں نمایاں کردار ادا کر سکتے ہیں۔
ماہرین نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ خلائی مشنوں کے دوران ماحول دوست ٹیکنالوجی کو اپنایا جائے اور لانچنگ کے اثرات کو کم کرنے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں تاکہ زمین کی فضائی اور حیاتیاتی نظام کو لاحق خطرات سے بچا جا سکے۔