پاکستانتازہ ترین

افغانوں کی زندگی الٹ گئی ،ماضی میں بااختیار، آج بے اختیار ،افغان شہری تیسری منزل کے انتظار میں

اسلام آباد (ویب ڈیسک): اگست 2021 میں افغانستان سے نکل کر کسی تیسرے ملک میں منتقل ہونے کی امید لے کر پاکستان آنے والے ہزاروں افغان شہری اب بے یقینی کی حالت میں پاکستان میں ڈیرے ڈالنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ان میں ایسے خاندان بھی شامل ہیں جنہوں نے افغانستان میں برسوں مختلف حکومتی اداروں میں خدمات سرانجام دیں، مگر آج وہ اسلام آباد کے پارکوں اور خیموں میں ایک نئے مستقبل کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔

ایک نسل جو بے وطن پیدا ہو رہی ہے

صرف ایک ماہ کے ننھے دانیال کو یہ نہیں معلوم کہ اس کا وطن کون سا ہے۔ وہ پاکستان میں پیدا ہوا، لیکن یہ نہیں جانتا کہ وہ کہاں بڑا ہوگا، کون سی زبان بولے گا، اور اس کی شناخت کیا ہو گی؟ اس جیسے ہزاروں بچوں کا مستقبل آج سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔

دانیال کی 24 سالہ ماں سمعیہ، افغانستان کے شمالی علاقے بغلان سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ فروری 2022 میں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد پاکستان آئیں۔ ان کا کہنا ہے:

"افغانستان میں ہمارے لیے جان بچانا بھی مشکل ہو گیا تھا۔ یہاں آ کر بھی زندگی رکی ہوئی ہے۔ نہ کوئی مقام ہے، نہ کوئی شناخت۔ ہمیں کسی تیسرے ملک میں محفوظ مستقبل دیا جائے۔”

سابق پولیس افسران آج بے گھر

اسلام آباد کے ارجنٹائن پارک میں اس وقت تقریباً 300 افغان خاندان موجود ہیں۔ ان میں وہ خواتین بھی شامل ہیں جو افغانستان میں پولیس جیسے باوقار ادارے میں خدمات سرانجام دیتی رہیں۔

پری نوری، جو دو بچیوں کی ماں اور افغانستان میں پولیس کی سابق افسر رہ چکی ہیں، کہتی ہیں:

"ہماری زندگی عزت دار تھی، لیکن طالبان کے آنے کے بعد سب کچھ ختم ہو گیا۔ اب ہم سڑک پر ہیں اور کسی نے نہیں پوچھا۔”

شہناز علی زادے، جنہوں نے افغان پولیس میں 14 سال تک نوکری کی، آج پاکستان میں بے سروسامانی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے:

"طالبان کنٹرول کے بعد ہم دو سال تک افغانستان میں چھپ کر رہے، لیکن ظلم اور تشدد نے ہمیں ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ اب پاکستان میں بھی ہم غیر یقینی کا شکار ہیں۔”

پالیسیوں میں تبدیلی، مستقبل غیر یقینی

افغان شہریوں کی بڑی تعداد، جو کسی تیسرے ملک میں منتقل ہونے کی امید پر پاکستان آئے تھے، امریکا سمیت دیگر مغربی ممالک کی پالیسیوں میں تبدیلی کے باعث پھنس چکے ہیں۔ ان کے ویزے یا ری سیٹلمنٹ کیسز رُک چکے ہیں، اور اب وہ قانونی حیثیت کے بغیر، بنیادی سہولیات سے محروم، غیرمحفوظ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

واپسی یا منتقلی؟ کوئی راستہ نہیں

دوسری جانب حکومت پاکستان غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کو واپس بھیجنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ وہ لوگ کہاں جائیں جن کے لیے نہ افغانستان محفوظ ہے، نہ کوئی تیسرا ملک دروازے کھول رہا ہے؟

نتیجہ: انسانی مسئلہ، عالمی توجہ کا طلبگار

یہ معاملہ صرف ایک ملک یا قوم کا نہیں، بلکہ ایک عالمی انسانی بحران ہے، جو دنیا کی توجہ کا طلبگار ہے۔ دانیال جیسے بچوں کو صرف خوراک، رہائش یا تعلیم کی نہیں، بلکہ شناخت اور مستقبل کی ضرورت ہے۔ ان خاندانوں کے لیے ایک باعزت اور محفوظ حل تلاش کرنا عالمی برادری، اقوام متحدہ، اور پناہ گزینوں کے اداروں کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔

مزید دیکھیں

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button