
نئی دہلی / کیلیفورنیا: ایلون مسک کی سوشل میڈیا کمپنی "ایکس” (سابقہ ٹوئٹر) اور بھارتی حکومت کے درمیان انٹرنیٹ سنسرشپ اور اظہارِ رائے کی آزادی کے معاملے پر قانونی محاذ آرائی زور پکڑ چکی ہے۔ یہ تنازع مارچ 2025 میں اس وقت شروع ہوا جب "ایکس” نے بھارتی حکومت کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کیا، جس میں حکومتی سنسرشپ کے احکامات کو بھارتی آئین اور آزادیِ اظہار کے خلاف قرار دیا گیا۔
حکومتی مؤقف: جعلی خبروں اور نفرت انگیزی کے خلاف کارروائی
بھارتی حکومت کا مؤقف ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز تقاریر، جھوٹی خبروں، اور غیر قانونی مواد کی روک تھام کے لیے سرگرم ہے۔ اکتوبر 2024 میں "سہیوگ” نامی ایک ڈیجیٹل پورٹل لانچ کیا گیا، جس کے ذریعے سینکڑوں سرکاری اداروں اور پولیس اہلکاروں کو براہ راست سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے مواد ہٹانے کی درخواست دینے کا اختیار حاصل ہو گیا۔
ایکس کا دعویٰ: سیاسی طنز اور تنقید بھی نشانہ بن رہی ہے
"ایکس” نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ انہیں سیاسی کارٹونز، طنزیہ پوسٹس اور حکومت پر تنقید کرنے والے مواد کو ہٹانے کا کہا گیا، جن میں اظہارِ رائے کی مکمل آزادی موجود تھی۔ ایک مثال کے طور پر ایسی پوسٹس کا ذکر کیا گیا جن میں وزیراعظم مودی اور ایک ریاستی وزیراعلیٰ کو مہنگائی کی نمائندگی کرتے "ریڈ ڈائناسور” سے لڑتے دکھایا گیا — جسے حکام نے "اشتعال انگیز” قرار دیا۔
اعداد و شمار: سینکڑوں مطالبات، متنازعہ مواد
عدالتی دستاویزات کے مطابق مارچ 2024 سے جون 2025 کے درمیان بھارتی حکومت نے 1400 سے زائد پوسٹس اور اکاؤنٹس ہٹانے کی درخواستیں دیں۔ اگرچہ کچھ مواد واقعتاً جعلی معلومات یا نفرت انگیزی پر مبنی تھا، لیکن بڑی تعداد میں وہ مواد بھی شامل تھا جو صرف حکومت پر تنقید یا طنز پر مبنی تھا۔
ایلون مسک کی پوزیشن: "آزادیِ اظہار مقدم ہے”
ایلون مسک، جو خود کو "آزادی اظہار کا عالمی حامی” قرار دیتے ہیں، مختلف ممالک میں حکومتوں کے ساتھ اظہار رائے کے معاملات پر متنازعہ بیانات اور اقدامات کے باعث خبروں میں رہتے ہیں۔ تاہم بھارت جیسی بڑی اور اہم مارکیٹ میں اس قانونی کشمکش نے خاصی توجہ حاصل کی ہے۔
ذاتی تعلقات اور پالیسی میں تضاد؟
دلچسپ امر یہ ہے کہ ایلون مسک اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے درمیان بظاہر خوشگوار تعلقات پائے جاتے ہیں، لیکن "ایکس” اور بھارتی ریاستی اداروں کے درمیان جاری یہ قانونی جنگ ٹیکنالوجی، جمہوری آزادیوں اور ریاستی اختیارات کے درمیان گہرے تصادم کی علامت بن چکی ہے۔