
ماسکو (بین الاقوامی ڈیسک) – روس نے اعلان کیا ہے کہ وہ زمین سے درمیانے اور کم فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک اور کروز میزائلوں کی تیاری، جانچ اور تعیناتی پر اب مزید پابند نہیں رہا۔ روسی وزارت خارجہ نے واضح کیا ہے کہ یکطرفہ پابندیاں اب غیر مؤثر ہو چکی ہیں، کیونکہ وہ حالات تبدیل ہو گئے ہیں جن میں یہ عارضی معطلی اختیار کی گئی تھی۔
INF معاہدے کا پس منظر
1987 میں امریکہ اور سابق سوویت یونین کے درمیان طے پانے والے Intermediate-Range Nuclear Forces Treaty (INF) کے تحت فریقین پر پابندی تھی کہ وہ:
500 سے 5,500 کلومیٹر تک کی رینج کے بیلسٹک یا کروز میزائل تیار، جانچ یا تعینات نہیں کریں گے۔
ایسے لانچرز بھی تیار نہیں کیے جا سکتے تھے جو ان میزائلوں کو داغنے کے قابل ہوں۔
نیٹو کی یقین دہانی نہ ملنے پر روس کا ردعمل
روسی وزارت خارجہ نے الزام عائد کیا ہے کہ متعدد بار کے انتباہات کے باوجود نیٹو اور بالخصوص امریکہ نے اس معاہدے کی پاسداری کی کوئی تحریری یا عملی یقین دہانی نہیں کرائی۔ وزارت خارجہ کے مطابق:
"ہم نے کئی بار واشنگٹن کو خبردار کیا، لیکن تمام انتباہات کو نظر انداز کر دیا گیا۔”
یورپ اور ایشیا میں امریکی میزائلوں کی موجودگی پر تشویش
روسی حکام کا کہنا ہے کہ امریکی ساختہ میزائلوں کو یورپ، ایشیا اور بحرالکاہل کے خطے میں تعینات کرنے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے پہلے بھی کہا تھا کہ امریکی میزائلوں کو ڈنمارک اور فلپائن میں مشقوں کے لیے لایا گیا تھا، تاہم ان کی واپسی سے متعلق کوئی وضاحت نہیں دی گئی۔
امریکہ کی معاہدے سے دستبرداری
واضح رہے کہ امریکہ نے 2019 میں INF معاہدے سے یکطرفہ طور پر علیحدگی کا اعلان کر دیا تھا، جس کے بعد معاہدے کی مدت 2 اگست 2019 کو ختم ہو گئی تھی۔ روس نے اس کے باوجود کچھ عرصے تک خود پر عائد پابندیاں برقرار رکھی تھیں، لیکن اب مکمل دستبرداری کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
روس کا انتباہ: جوابی اقدامات کا حق محفوظ رکھتے ہیں
روسی وزارت خارجہ نے خبردار کیا ہے کہ:
"ملکی قیادت امریکی اور دیگر مغربی ممالک کی میزائل تعیناتی کی نوعیت دیکھتے ہوئے مناسب جوابی اقدامات کا فیصلہ کرے گی۔”
یہ فیصلے اس بات پر منحصر ہوں گے کہ عالمی اسٹریٹیجک استحکام اور سلامتی کی صورت حال آئندہ کیسے بنتی ہے۔
تجزیہ: عالمی اسلحہ کنٹرول کو نیا خطرہ
ماہرین کے مطابق روس کا یہ فیصلہ عالمی اسلحہ کنٹرول اور ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کی کوششوں کے لیے ایک بڑا دھچکہ ہے۔ ماہرین خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اس سے یورپ اور ایشیا میں ایک نئی میزائل دوڑ کا آغاز ہو سکتا ہے۔