
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی): اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی، صحت اور وطن واپسی سے متعلق کیس میں وفاقی کابینہ کو توہینِ عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کر دیا۔ عدالت کی جانب سے یہ سخت اقدام حکومتی رپورٹ بروقت پیش نہ کرنے پر اٹھایا گیا۔
معزز جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کیس کی سماعت کے دوران برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ عدالت کے احکامات کو نظرانداز کرنا ناقابلِ قبول ہے۔ انہوں نے کہا کہ "عدلیہ کی توہین کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔”
"فوزیہ صدیقی پاکستان کی بیٹی ہے” – جسٹس اعجاز
عدالت نے واضح کیا کہ یہ کیس ایک عام نوعیت کا نہیں بلکہ قومی اہمیت کا حامل ہے۔ جسٹس اعجاز اسحاق خان نے کہا:
"فوزیہ صدیقی پاکستان کی بیٹی ہے۔ اگرچہ میری چھٹیاں آج سے شروع ہونی تھیں، پھر بھی میں نے یہ کیس مقرر کیا کیونکہ یہ انصاف اور انسانی وقار کا مسئلہ ہے۔”
روکنے کی کوشش؟ جج کے ریمارکس اور کازلسٹ کا تنازعہ
جسٹس اعجاز نے انکشاف کیا کہ عدالت کی چھٹیوں کے باوجود انہوں نے کیس کو مقرر کروانے کی کوشش کی، تاہم چیف جسٹس کی جانب سے روستر کی تبدیلی نہ ہونے کے باعث کازلسٹ جاری نہیں ہو سکی۔ انہوں نے کہا:
"جج چاہے بھی تو چھٹی میں کام نہیں کر سکتا۔ عدلیہ کی جوڈیشل پاور کو ایڈمنسٹریٹو معاملات کے ذریعے متاثر کرنا، عدلیہ کے اختیارات میں مداخلت ہے۔”
درخواست گزار کا مؤقف: "ہمیں معلوم ہے ہائی کورٹ کیسے چل رہی ہے”
درخواست گزار کی وکالت کرنے والے عمران شفیق ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ:
"اگر حکومت کو اسٹے لینا ہوتا تو فوری بینچ بن جاتا۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہائی کورٹ کس طرح چل رہی ہے۔ سپریم کورٹ میں بھی یہ کیس دانستہ مقرر نہیں کیا جا رہا کیونکہ وہاں جسٹس منصور علی شاہ موجود ہیں۔”
آئندہ سماعت اور انتباہ
عدالت نے آئندہ سماعت عدالتی تعطیلات کے بعد پہلے ورکنگ ڈے پر مقرر کرنے کی ہدایت جاری کی، اور حکومت کو خبردار کیا کہ مزید تاخیر کی صورت میں توہینِ عدالت کی کارروائی کی جائے گی۔
پس منظر
یاد رہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی گزشتہ کئی برسوں سے امریکہ میں قید ہیں، اور ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی متعدد بار عدالتی، سفارتی اور عوامی سطح پر ان کی رہائی اور وطن واپسی کے لیے کوششیں کر چکی ہیں۔ اس کیس نے قومی سطح پر نہ صرف انسانی حقوق بلکہ حکومتی سنجیدگی پر بھی سوالات کھڑے کیے ہیں۔