0

انسان کو تندرست رکھنے والے جراثیم

اسلام آباد:پچھلے عشرے کے دوران بنی نوع انسان پر ایک حیرت انگیز انکشاف ہوچکا: یہ کہ اس کی آنتوں، منہ، جلد، سانس کی نالی ، تناسلی اعضا اور دیگر اندرونی جسمانی مقامات میں کھربوں جراثیم، وائرس اور دوسرے خردبینی جاندار رہتے بستے ہیں۔وزن کے حساب سے بات کی جائے تو یہ غیرمرئی ننھے منے جاندار کُل انسانی وزن کا تین فیصد بنتے ہیں۔ گویا 80 کلو وزنی ایک انسان میں تقریباً ڈھائی کلو وزن ان خردبینی جانداروں کا ہوتا ہے جو ہمیں دکھائی نہیں دیتے۔ ماہرین طب نے انھیں ’’مائکروبائیوم‘‘ (Microbiome) کا نام دیا ہے۔ ان جانداروں کی ہزارہا اقسام ہیں۔انسان کے بدن کو مفت میں ٹھکانہ بنا لینے والے ان ننھے باسیوں کو معمولی مت سمجھیے، یہ ہمیں جسمانی اور ذہنی طور پہ تندرست رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اور اگر ان کی حالت بگڑ جائے تو انسان کی طبعیت بھی خراب ہو جاتی ہے۔خاص طور پہ ہمارے نظام ہاضمہ اور دماغ ان مائکرو بائیوم کی خرابی سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں کیونکہ ننھے جانداروں نے اپنی سرگرمیوں کے ذریعے انھیں باہم منسلک کر رکھا ہے۔ معنی یہ کہ جب بھی مائکروبائیوم کی حالت بگڑنے سے ہمارا پیٹ خراب ہو جائے تو ہم خود کو پژمردہ، افسردہ اور ذہنی طور پہ پریشان بھی محسوس کریں گے۔ کتنی عجیب بات مگر ہے سچ!ہمارے جسم میں سب سے زیادہ خردبینی جاندار نظام ہاضمہ میں ملتے ہیںجن کی تعداد 100 ٹریلین تک پہنچ سکتی ہے۔ منہ، غذائی نالی، شکم اور چھوٹی و بڑی آنت اس نظام کے بنیادی حصے ہیں۔ اس نظام کے افعال میں جگر، پتہ، تلی اور لعاب دہن والے غدود بھی اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ نظام ہاضمہ میں مقیم خردبینی جاندار طبی اصطلاح میں ’’گٹ مائکرو بائیوٹا ‘‘(Gut microbiota)کہلاتے ہیں۔یہ واضح رہے کہ ایک اندازے کے مطابق زمین پر جراثیم، وائرسوں، پھپوندی، پروٹوزا اور خردبینی جانداروں کی دیگر اقسام کی تعداد ’’پانچ ارب ٹریلین‘‘بنتی ہے۔ یہ ہر جگہ ملتے ہیں، ہوا سے لے کر پانی تک میں اور انسان سمیت تمام جانوروں کے اجسام میں پائے جاتے ہیں۔ یہ سبھی یک خلوی ہیں، یعنی ایک خلیہ رکھنے والی اللہ تعالی کی عجیب وغریب مخلوق! ان میں سب سے زیادہ تعداد جراثیم اور وائرسوں کی ہے۔دنیا میں بیشتر جراثیم اور وائرس انفرادی طور پہ رہتے ہیں۔ مگر ان کی کچھ اقسام کسی بڑے جاندار مثلاً انسان کے جسم میں اپنی کالونیاں بنا کر وہاں اپنا مخصوص ماحول (environment) قائم کر لیتی ہیں۔ کالونیاں بنا لینے والے انہی خردبینی جانداروں کو مائیکروبایوٹا کہا جاتا ہے۔جبکہ انسان یا حیوان کے پورے جسم میں رہتے بستے ننھے منے جاندار مجموعی طور پہ مائیکروبائیوم کہلاتے ہیں۔ جیساکہ بتایا گیا، انسانی بدن میں ہمارا نظام ہاضمہ ان غیر مرئی جانداروں کی سب سے بڑی آماج گاہ ہے۔اول یہ کہ مختلف اقسام کی غذائیں کھائیے، مثلاً سبزی، پھل، دال، سالم اناج اور تھوڑا بہت گوشت بھی۔ ایسا نہ ہو کہ ایک قسم کی غذا ہی پر گزارا کیا جائے۔ یوں مطلوبہ غذائی عناصر نہیں مل پاتے۔ دوم دہی کھائیے، اس میں انسانی صحت کے لیے مفید جراثیم، پروبائیوٹک (probiotics) ملتے ہیں۔سوم’’پری بائیوٹک‘‘ (prebiotic )غذائیں کھائیے۔یہ نظام ہضم میں اچھے جراثیم کی تعداد بڑھاتی ہیں۔ اکثر سبزیاں، پھل اور اناج پری بائیوٹک ہیں۔چہارم ہو سکے تو مائیں اپنے بچے کو کم از کم چھ ماہ اپنا دودھ پلائیں تاکہ اسے اپنے جسم میں شروع سے عمدہ ’’مائکروبائیوم‘‘مل سکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں