0

پاکستانی طالب علموں نے مصنوعی ذہانت پر شاندار ایجادات پیش کردیں

کراچی: علیگڑھ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے طلبہ وطالبات نے جدید ٹیکنالوجی اور آرٹیشفشل انٹیلیجنس کے استعمال سے علاج کے لیے اپنے پروجیکٹس بنا کر حیران کردیا اور ثابت کردیا کہ اگر ہمارے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو استعمال کیا جائے تو وہ سائنس کی دنیا میں انقلاب برپا کرسکتے ہیں۔تفصیلات کے مطابق کے زیرِ اہتمام ڈی اے ای پروجیکٹس کی نمائش کا انعقاد کیا گیا جس میں 8 مختلف شعبوں میں ، ڈپلوما آف ایسوسی ایٹ انجینئر پروگرام کے 1100طلباء کے تیارکردہ 290 پروجیکٹس نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔آرکیٹیکچر، الیکٹریکل ، بایو میڈیکل ، الیکٹرونکس ، مکینیکل ، سافٹ ویئر انجینئرنگ ، کمپیوٹر انفارمیشن اور سول کے طلبہ نے جدید ٹیکنولوجی پر مشتمل پراجیکٹس دکھائے۔مقامی سطح پر کم لاگت سے تیار کردہ بین الاقوامی سطح پر رائج سلوشنز شعبہ طب میں انقلابی تبدیلی کا ذریعہ بنیں گے۔طالبعلموں نے کم لاگت میں پورٹیبل انیستھیسیا مشین، اسمارٹ روبوٹک ہینڈ، اسٹیم انجن ، ڈویل ٹنل فوٹو تھراپی ، سمارٹ وینٹیلیٹر اور جدید موٹر کارز بنائیں پروجیکٹ فیئرکا افتتاح سندھ بورڈ ٹیکنیکل ایجوکیشن کے چیئرمین ڈاکٹر مسرور احمد شیخ نے کیا ۔ سندھ بورڈ ٹیکنیکل ایجوکیشن کے چیئرمین ڈاکٹر مسرور احمد شیخ نے طلباء کے جدید اور منفرد پروجیکٹس کو سراہتے ہوئے کہا کہ تمام آئیڈیاز بہت اچھے اور متاثرکن تھے جوطلباء کی تخلیقی صلاحیتوں اور مہارت کی عکاسی کرتے ہیں ۔وقت کا تقاضا ہے کہ جامعات کے صنعتی شعبے کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کئے جائیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کے طلبہ باصلاحیت ہیں مگر ان کو صحیح رہنمائی یا پلیٹ فارم نہیں ملتا جہاں وہ اپنی کارکردگی دکھاسکیں۔ اس طرح کی نمائش سے ان کو اپنی صلاحتیں دکھانے کا موقع ملتا ہے اور حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے۔علیگڑھ انسٹیٹیوٹ کے پرنسپل شاہد جمیل نے کہا کہ طلباء کو نئے تصورات پر کام کرنا چاہئے ۔ نمائش میں طلباء کے کئی پروجیکٹس ایسے ہیں جو بہت اہم ہیں اور صنعتی اہمیت رکھتے ہیں اور کسی بھی کمپنی کے اشتراک سے تجارتی بنیاد پر بنائے جاسکتے ہیں ۔بایومیڈیکل کی طالب علم سدرہ سعید نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کارڈ بورڈ ، ٹینڈن روپ، جمپر وائر کی مدد سے ایک ہفتے میں 3 ہزار کی لاگت سے سمارٹ روبوٹک ہینڈ تیار کیا ہے۔ سمارٹ روبوٹک ہینڈ کنٹرول سسٹم پورٹیبل اور ہلکا پھلکا ہے جس کو وہیل چیئر سے بھی منسلک اور دستانے میں موجود سینسروں کے ذریعے بھی استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔ یہ روبوٹ بازو معذور مریضوں کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔روبوٹک ہاتھ کو اوپن سورس پلیٹ فارم، آرڈینو سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح معذور افراد بہت آزادی کے ساتھ اپنی زندگی بہتر بناسکتے ہیں۔بایو میڈیکل کے طالب علم محمد ارحم نے پچاس ہزار کی لاگت سے چھ ایم ایم ایکریلک شیٹ سے انیستھیسیا مشین تیار کی ہے۔ اسی شعبے کے ایک اور طالبعلم یحیٰ قادر نے ایک لاکھ 67 ہزار روپے کی لاگت سے ڈوئل ٹنل فوٹوتھراپی مشین بنائی ہے جو نومولود بچوں کے میں یرقان (جونڈائس) کے لیے استعمال ہوگا جس میں الٹرا وائلٹ لائٹس ، دو ان آف ٹچ اسکرین بٹن ، درجہ حرارت کا بھی سوئچ ہے جس سے بچے اور ماحول کی درجہ حرارت ریکارڈ کی جاسکے گی ۔ اس کے علاوہ دو پنکھے لگائے ہیں ۔ اسی نظام میں ، سکشن بلڈ کلیکشن ٹیوب ، ایگزیمہ کے خاتمے کیلئے لائٹ بھی ہے۔ ایک طالب علم نے نابینا افراد کیلئے الٹرا سونک سینسر گلاسز بنائے ہیں۔ یہ ایک خاص عینک ہے جسے نینوکوٹنگ کے ذریعے تیارکیا گیا ہے۔ اس میں آڈیو اور بزر کی بدولت تیزرفتار کار کی آمد سے خبردار کیا جاسکتا ہے۔ اس میں مصنوعی ذہانت، لیزرلائٹ اور کیمرہ ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے۔دعا ہاشمی نے شدید بیمار مریضوں کے لیے محفوظ اور مؤثر وینٹی لیٹر بنایا ہے۔ یہ ایک مکینیکل وینٹی لیٹر ہے جسے موبائل فون یا ایپ بذریعہ بلیوٹوتھ کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ اپنی انفرادیت کی بنا پر اسے آسانی سے ایمبولینس میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں