132

سن 1505ء اور 2005 ء ، 8 اکتوبر زمین 600میٹر اندر کیوں دھنس گئی ، پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا زلزلہ

8 اکتوبر 2005 ء کا سورج جب طلوع ہوا تو قدرت نے یہ سارے تصورات خیالات اور بداعتمادیوں کو ایک مکے میں زمین بوس کردیا۔ 8 اکتوبر کی صبح ملک کے بالائی حصوں میں قیامت بن کر آئی۔ 7.6 پر آنے والے زلزلے نے کئی شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ ہزاروں افراد لقمہ اجل بن گئے۔ اسلام آباد سمیت لاہور، ملتان بھی اس کی لپیٹ میں آگیا۔ مگر آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات مظفرآباد باغ اور صوبہ سرحد کے کئی علاقے بٹ گرام باسمہ اور ایبٹ آباد وغیرہ تو جیسے تھے ہی نہیں۔ سب کھنڈرات میں تبدیل ہوگئے۔پیاڑوں نے اپنے ہی لوگوں کو نگل لیا۔ اسلام آباد میں 10 منزلہ عمارت مارگلہ ٹاور نے اپنے ہی مکینوں کودبادیا۔ ایک ایسا سانحہ برپا ہوا کہ تاریخ کے وہ ابواب ذہنوں میں گھوم گئے جس میں قدرتی آفات نے عذاب الہی کی شکل میں شہروں کو نابود کردیا قوموں کو صفحہ ہستی سے غائب کردیا۔زلزلے کا مرکز بالاکوٹ کے انتہائی قریب تھا۔ جو پہلے قراقرم کے قریب تھا، اب اسلام آباد سے صرف سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ 3 اکتوبر 2005 ء کو پاکستان میں نظر آنے والا سورج گرہن اچھا ثابت نہ ہوا۔ جس کی وجہ سے اور بھی مشکلات سے ملک کو دوچار ہوئے پڑا۔ سورج گرہن نظر آنے کے بعد اکثر طوفانات، زلزلے اور جنگوں جیسی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ 3 اکتوبر کو نظر آنے والا گرہن بھی پاکستان کے لیے مثبت ثابت نہ ہو گا۔ اس زلزلے کا دورانیہ اسلام آباد میں 6 منٹ تھا اور لاہور میں 2 منٹ کے قریب تھا۔ کوئٹہ میں 1935 ء کے زلزلے کا دورانیے 10 منٹ تک تھا، جبکہ ریکٹر اسکیل پر دونوں کی شدت ایک
ہی تھی ۔کل پھر یعنی 7اکتوبر 2021صبع 3بج کر 2 منٹ پر بلوچستان میں زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کئے گے جس کے نتیجے میں 24سے زائد لوگ جان بحق اور 300سے زائد لوگ زخمی ہوئے۔ زلزلہ پیما مرکز کے مطابق زلزلے کی شدت 5.9 ریکارڈ کی گئی جبکہ زلزلے کا مرکز ہرنائی سے 15 کلو میٹر دور کا علاقہ تھا۔
برصغیر اس وقت تقریبا 45 ملی میٹر سالانہ کی شرح سے ایشیا میںدھنس رہا ہے۔ اور آہستہ آہستہ گھڑی کی مخالف سمت میں گھوم رہا ہے جس کے نتیجے میںبرصغیرکے مغربی حصے بلوچستان میں تبدیلی کی حرکت تقریبا 42 ملی میٹر سالانہ اور مشرقی حصے ہندو بری پہاڑی سلسلے میں 55 ملی میٹر سالانہ ہے۔ ایشیا کے اندر تبدیلیوں کی وجہ سے برصغیر کا تبت کے ساتھ 18 ملی میٹر فی سال کی شرح سے سمٹاؤ کم ہورہا ہے۔ تبت مشرق و مغرب کی طرف پھیلتا جارہا ہے۔ اس لیے ہمالیہ کا سمٹاؤ ایک آرک کی مانند ہے۔ اس سمٹاؤ سے سلیب پیدا ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے ہمالیہ کے نیچے بڑے بڑے زلزلے پیدا ہوتے ہیں جس کی شرح ایک عشاریہ آٹھ ایم فی صدی ہوتی ہے
ماضی کے زلزلوں کی تاریخ سے اخذ کیا گیا تھا کہ اس علاقے میں بڑا زلزلہ آسکتا ہے۔ یہ کلیہ پورے ہمالیہ کے لیے ہے۔ انڈین پلیٹ کی برما میں واقع مشرقی حدود سے پاکستان، افغانستان اور بلوچستان میں واقع مشرقی حدود تک صادق آتا ہے کہ یہاں پر 8 ایم کی شدت کا زلزلہ آسکتا ہے۔ وسطی ہمالیہ گیپ بہت خطرناک ہے۔ یہاں سن 1505 ء میں 600 میٹر زمین کھسک گئی تھی۔ کہا گیا تھا کہ زمین کا دوبارہ شق ہونا تباہ کن ہوگا۔ یہ وہی علاقہ ہے جہاں 8 اکتوبر 2005 ء کو زلزلہ آیا تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں