830

نیو لبرل ازم کیا ہے؟

تحریر: جمیل اقبال
لبرل ازم Liberalism، مغربی دنیا میں قریب ۳۰۰ سالہ تاریخ رکھتا ہے، جس نے اٹھارویں صدی کے جنگ عظیم دوئم کے بعد پوری دنیا کو ایک حیرت انگیز سیاسی، معاشی اور معاشرتی طور پر نئی تبدیلی سے روشناس کروایا ۔ لیکن گزشتہ ۳۰۰ سالوں میں لبرل ازم نے بھی ہر عہد اور جغرافیہ کے اعتبار سے ارتقائی تبدیلیوں کو قبول کیا۔ ان تین سو سالوں میں لبرل ازم کئی ادوار سے گزرا ہے۔ جنہیں ہم ان تین ادوار میں بانٹ سکتے ہیں۔

۱- کلاسیکل لبرل ازم ( Classical Liberalism) سنہء ۱۸۵۰ تک۔
۲- ماڈرن لبرل ازم ( Modern Liberalism) سنہ ء ۱۸۵۰- ۱۹۷۰ تک۔
۳- نیو لبرل ازم (Neo Liberalism) سنہء ۱۹۷۰ کے بعد سے موجود عہد تک۔

کلاسیکل یا اقتصادی لبرل ازم انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے اوائل تک امریکا و یورپ میں جاری رہا، پھر سنہء ۱۹۳۰ کے عظیم مالی انحطاط کے بعد ایک نیا ماہر اقتصادیات سامنے آیا، جس کا نام جوہن مینرڈ کینز Keynes تھا۔ کینز نے اس تصور کو چیلنج کیا کہ سرمایہ داروں کے لیے لبرل ازم بہترین پالیسی ہے، اس کا ماننا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام کی افزائش کے لیے مکمل روزگار ضروری ہے اور روزگار میں اضافہ حکومت اور سینٹرل بینکوں کی مداخلت کے ذریعے ہی ممکن ہوسکتا ہے۔

پرانے لبرل ازم کا آغاز چونکہ اپنی بنیاد میں اقتصادی معاملات میں حکومت کی مداخلت کو ختم کر دینا تھا یعنی، مینوفیکچرنگ پر پابندیاں نہ لگائی جائیں، کامرس یا کاروبار کی راہ میں رکاوٹیں نہ کھڑی کی جائیں، کوئی محصول یا ٹیکس نہ لگایا جائے۔ آزاد تجارت کسی بھی قوم کی معیشت کو ترقی دینے کا بہترین طریقہ ہے۔ کوئی بھی کنٹرول نہ ہونے کے حوالے سے ان تصورات کو اقتصادی معنوں میں لبرل کہا گیا تھا۔ فرد کی آزادی کے اس تصور نے آزاد کاروبار اور آزاد مقابلے کی حوصلہ افزائی کی اور یوں سرمایہ داروں کو من چاہا منافع کمانے کی آزادی مل گئی۔

نیو لبرل ازم Neo Liberalism :

نیو لبرل ازم کا نفاذ کا سہرا لمبے عرصے تک برطانیہ پر حکمرانی کرنے والی مارگریٹ تھیچر اور امریکہ میں قریب ۸ برس تک حکمران رونالڈ ریگن کو جاتا ہے۔ ایسا پہلی بار دنیا نے دیکھا کوئی اکانومی آئیڈ یا پیش کیا گیا ہو اور اس کا عملی نفاذ فوری طور پر ریاست میں نظر آجائے۔ ابتدا میں ان پالیسیوں سے بظاہر بہت سے لوگوں کی زندگی میں بہتری آئی۔ سنہء ۱۹۸۰ سے پہلے قریب ۶۰ برس (ماڈرن لبرل ازم کے دورانیے میں) عالمی سطح پر تنخواہوں اور دولت میں ناہمواری کم ہوتی رہی، جو خوش کن تھی، اس اقتصادی نظریئے کو وسیع پیمانے پر قبول بھی کیا گیا کہ حکومتوں کو عوام کی بھلائی کے لیے کام کرنا چاہیے۔ لیکن گزشتہ پچیس سے تیس سالوں کے سرمایہ داری بحران، سکڑتے ہوئے منافع نے کارپوریٹ اشرافیہ کو اقتصادی لبرل ازم کے احیا پر اکسایا۔ یوں نیولبرل ازم سامنے آیا جو عالمگیریت کی وجہ سے ساری دنیا میں پھیل گیا۔ لیکن نیولبرل ازم کے آنے کے بعد یہ اس نظام کی خود غرضی اور انفرادی سطح پر فائدہ مند ہونے کا اصل روپ سامنے آنے لگا، اور نیو لبرل ازم کے آغاز کے بعد سے معاشی ناہمواری میں پھر سے شدت سے اضافہ ہونے لگا، اور اس کا تسلسل آج تک جاری ہے۔

نیولبرل ازم کے بنیادی اہم نکات یہ ہیں:

۱۔ مارکیٹ کی حکمرانی:
نجی کاروبار کو حکومت کی عائد کردہ پابندیوں سے آزاد کرنا خواہ اس سے کتنا ہی سماجی نقصان کیوں نہ ہو۔ بین الاقوامی تجارت اور سرمایہ کاری کو بڑھاوا دینا۔ محنت کشوں کی یونینیں ختم کرکے ان کے معاوضے کو کم کرنا۔ سالہا سال کی جدوجہد کے بعد محنت کشوں نے جو حقوق حاصل کیے تھے، ان کو ختم کرنا۔ قیمتوں پر کسی قسم کا کنٹرول نہ ہونا۔ مختصر یہ کہ سرمائے، اشیا اور خدمات کی نقل و حرکت کی مکمل آزادی۔ نیولبرل ازم کی اچھائی پر قائل کرنے کے لیے یہ سمجھایا جاتا ہے کہ اقتصادی گروتھ یا بڑھوتری میں اضافے کا بہترین طریقہ ایک ایسی مارکیٹ ہے جس پر کسی قسم کے ضابطوں کا اطلاق نہ ہوتا ہو اور جس سے بالآخر سب کو فائدہ پہنچے گا۔ یہ ریگن کی رسد کی بڑھوتری کی بات اور رس رس کر نیچے پہنچنے والی اقتصادیات ہے لیکن بد قسمتی سے دولت زیادہ نیچے نہیں پہنچ پائی۔

۲۔ سرکاری اخراجات:
ریاستی کار برائے سماجی خدمات جیسے تعلیم، صحت کی سہولتوں اور غریبوں کی مدد یہاں تک کہ سڑکوں اور پلوں کی دیکھ بھال اور پانی کی فراہمی میں کمی کرنا اور یہ بھی حکومت کے کردار میں کمی کے نام پر ہوتا ہے مگر وہ کاروبارکے لیے دی جانیوالی سرکاری مراعات کی مخالفت نہیں کرتے۔

۳۔ ڈی ریگولیشن:
ہر اس چیز کی سرکاری ریگولیشن میں کمی کرنا جس سے منافع میں کمی آسکتی ہو، اس میں کام کے دوران ماحولیاتی تحفظ بھی شامل ہے۔

۴۔ نجکاری:
سرکاری ملکیت والے اداروں اور سروسز کو نجی سرمایہ کاروں کے ہاتھ فروخت کرنا۔ اس میں بینک، کلیدی صنعتیں، ریل روڈ، ٹول ہائی ویز، بجلی و توانائی کے ادارے، سکول، اسپتال یہاں تک کہ تازہ پانی بھی شامل ہے، گو کہ ایسا عام طور پر کارکردگی کو بہتر بنانے کے نام پر کیا جاتا ہے جس کی اکثر ضرورت بھی ہوتی ہے لیکن اکثر صورتوں میں اس کا نتیجہ دولت کا چند ہاتھوں میں جمع ہونے کی صورت میں نکلتا ہے اور عوام کو اپنی ضرورت کی چیزیں پہلے سے مہنگے داموں خریدنی پڑتی ہیں۔

۵۔ عوامی بھلائی یا کمیونٹی کے تصور کا خاتمہ :
عوامی بھلائی یا کمیونٹی کے تصور کا خاتمہ کرنا اور اس کی جگہ انفرادی ذمہ داری کی بات کرنا، معاشرے کے غریب ترین افراد پر دباؤ ڈالنا کہ وہ اپنے مسائل کا حل خود ہی ڈھونڈیں, (ویسے آج کل سارے موٹیویشنل چمونے یہی کام کررہے ہیں) جیسے تعلیم، سماجی تحفظ، طبی سہولتوں کے فقدان جیسے مسائل اور اگر وہ ایسا نہ کر سکیں تو پھر انہیں کام چور اور نکما قرار دیدیا جاتا ہے۔ ویسے بھی دیکھا جائے تو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے طاقتور مالیاتی اداروں نے دنیا بھر میں نیولبرل ازم کو مسلط کر ہی دیا ہے۔

نیو لبرل ازم کے رو بہ عمل ہونے کی پہلی واضح مثال چلی میں دیکھنے میں آئ تھی۔جب ایلینڈے کی مقبول منتخب حکومت کا تختہ سی آئی اے کی مدد سے سنہء ۱۹۷۳ میں الٹا گیا تھا جس کے بعد دوسرے ملکوں کی باری آئی، اور سب سے بدترین اثرات میکسیکو میں دیکھنے میں آئے تھے، جہاں نیو لبرل پالیسیوں کے نفاذ کے پہلے سال ہی محنت کشوں کی اجرتیں کم ہوکر آدھی رہ گئیں تھیں اور بنیادی ضروریات زندگی کی اشیاء کی قیمتوں میں ۸۰ فی صد تک اضافہ ہوا تھا، چھوٹے اور درمیانے درجے کے بیس ہزار کاروبارختم ہو گئے تھے اور ایک ہزار سرکاری اداروں کی نجکاری کر دی گئی تھی۔

بقول شخصے نیو لبرل ازم کا مطلب تیسری دنیا کے ممالک کو پھر سے نو آبادیاتی شکل میں لانا ہے۔ لاطینی امریکا، افریقہ اور ایشیائی ممالک میں آپ کو ایسی بہت سی مثالیں ملیں گی اور غربت میں تسلسل سے اضافہ دیکھنے میں ملے گا، بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ موجودہ دور کے سرمایہ داری کے نظام کو ہی نیو لبرل ازم کہا جاتا ہے تو شاید بے جا نہ ہوگا، اور اس مضمون کا مقصد بھی موجود عہد کے نیولبرل ازم پر روشنی ڈالنا ہے، نیو لبرل ازم دراصل ان اقتصادی پالیسیوں کا مجموعہ ہے جن پر سرمایہ دار ممالک گزشتہ پچیس سے تیس برسوں سے کاربند ہیں۔ یہ لبرل ازم کا تصور فلاح کا دعوی کرتا تو نظر آیا لیکن اس کی پشت پر بھی معاشی فوائد ہی رہے، جو عوام کے نہیں بلکہ خاص اشرافیہ کے ہی تھے، یورپ سے شروع ہونے والے اس نیولبرل ازم سے وہاں کے جاگیردار اور سرمایہ دار ہی اصلا ً مستفیض ہوئے۔

سماجی جغرافیہ دان (geographer social) ڈیوڈ ہاروے اس کا خاکہ یوں پیش کرتا ہے
”سیاسی معاشی عملی ضابطہ عمل (practices) کا وہ نظریہ جو تجویز کرتا ہے کہ انسانوں کی فلاح کو ایک ایسے رسمی ڈھانچے کے اندر، جس کی خصوصیت نجی ملکیت کے محکم حقوق، آزاد منڈیاں اور آزاد تجارت ہو، انفرادی کاروباری تنظیم کاری (انٹرپرینیور شپ ) کی آزادیاں دے کر اور اسے باہنر بنا کر سب سے بہتر انداز میں آگے بڑھایا جا سکتا ۔ نیولبرل ریاستیں ضمانت دیتی ہیں، ضرورت پڑنے پر طاقت کے استعمال کے ذریعے بھی منڈی کے ’مناسب افعال‘ کی اور جہاں ضرورت ہو اسے پیدا کرتی ہیں (مثلاً زمین، پانی، تعلیم، صحت، سوشل سیکورٹی یا ماحولیاتی آلودگی)۔ منڈیوں کی حرمت کی ضمانت ہی ریاست کے جائز افعال کی حد سمجھی جاتی ہے اور ریاستی مداخلت ہمیشہ منڈیوں کے ماتحت ہوتی ہے۔ نہ صرف سامان اور خدمات کی پیداوار بلکہ سارا انسانی ڈھنگ منڈی کے نصرام تک محدود ہوجاتا ہے۔ منڈی بذاتِ خود ایک مقصد بن جاتی ہے اور چونکہ ریاستوں کا جائز فعل منڈیوں کا دفاع اور انہیں نئے حلقہ اثر میں لے جانا ہوتا ہے اس لیے اگر لوگ ایسا فرد کو منتخب کریں کہ جو منڈیوں کے ان افعال میں رکاوٹ ڈالے تو جمہوریت احتمالی مسئلہ بھی بن جاتی ہے یا انسانی endeavor کے لیے مخصوص دائرے (مثلاً تعلیم اور صحت) منڈی کی منطق کے لیے مسئلہ بن سکتے ہیں۔ اسی لیے ایک خالصتاً نیولبرل ریاست فلسفیانہ لحاظ سے منڈی کو اختیار دیتی ہے، یہاں تک کہ اپنے شہریوں سے بڑھ کر۔ بطور نظریہ نیو لبرل ازم اتنا ہی یوٹوپیائی (خیالی) ہے جتنا خیالی کمیونزم۔ حقیقی دنیا میں یوٹوپیائی نیولبرل ازم کا اطلاق بگڑے ہوئے سماج کی طرف لے جاتا ہے جیسا کہ یوٹوپیائی کمیونزم کے اطلاق نے کیا تھا۔

نیولبرل حکومت دراصل کارپوریشنوں اور بینکوں کی حکومت ہوتی ہے اور کارپوریشنیں اور بینک جمہوری ادارے نہیں ہوتے۔ ان کا اقتدار نظم بڑھوتڑی برائے بڑھوتری سرمایہ کا اقتدار ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ میڈیا اور تعلیم کے ذریعے وہ جمہوری عمل کو ایسی انتظامی اور قانونی ساخت میں جکڑ لیتے ہیں جو عوامی رائے کو سرمایہ دارانہ حکمت عملیوں کی تصدیق کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ پچھلی چار دہائیوں میں نہ صرف غریب سے امیر طبقات کی طرف دولت کی منتقلی کا عمل شدت سے تیز ہوا ہے بلکہ دولت مند طبقات کے اندر بھی یہ عمل جاری ہے جس میں پیداوری عمل اور سہولیات کے شعبوں میں کام کر کے دولت کمانے والے امیر طبقات سے اثاثہ جات اور سرمائے کے مالک امیر طبقات کی طرف کرائے اور سود کی شکل میں دولت کی منتقلی شامل ہے۔ کرائے اور سود کی شکل میں دولت کمانے کے عمل نے محنت کر کے دولت کمانے کے عمل پر فیصلہ کن برتری حاصل کرلی ہے۔

اس قانونی اور انتظامی شکنجوں سے نکلنا آج کے دور میں اور مشکل بنا دیا گیا ہے کیونکہ کارپوریشنوں اور بینکوں کا تسلط عالمی ہوچکا ہے اور وہ عالمی انتظامی صف بندی اور قانون سازی کو ملکی سیاسی نظام پر مسلط کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہوچکا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ نمائندہ جمہوریت تو ملکی ریاست تک محدود ہے۔ سرمایہ دارانہ عالمی نظم اقتدار جو کہ قطعاً جمہوری نہیں قومی جمہوری اقتدار کو مقید کرتا ہے اور اس عالمی سرمایہ دارانہ استبدادی نظام کی پشت پر استعمار و نو آبادیاتی نظام کی ہمہ گیر قوت ہے۔ اشتراکیت کی طرح نیو لبرل ازم بھی ایک ایسی بلا کا نام ہے جو ناکام تو ہوگیا ، لیکن پے در پے غلافوں میں لپٹا نظریات اور پالیسیوں کا ایسا تسلسل ہے جس کو سمجھنا اتنا آسان نہیں، یہ سرمایہ داری، نو آبادیاتی اور سامراجیت ایک ایسی تثلیث ہے ۔ جس نے آج کی دنیا کو معاشی بحران اور عالمی ماحولیاتی تباہی کے ایسے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ اگر اس کا ادراک نہ کیا گیا تو موجود عہد کے کرونا وباء جیسی کئی نئی صورتحال کا ہمیں سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

سنہء 2018 کی ایک پرانی تحریر، معمولی ردو بدل کے ساتھ ۔

منصور ندیمنیو لبرل ازم کیا ہے؟

لبرل ازم Liberalism، مغربی دنیا میں قریب ۳۰۰ سالہ تاریخ رکھتا ہے، جس نے اٹھارویں صدی کے جنگ عظیم دوئم کے بعد پوری دنیا کو ایک حیرت انگیز سیاسی، معاشی اور معاشرتی طور پر نئی تبدیلی سے روشناس کروایا ۔ لیکن گزشتہ ۳۰۰ سالوں میں لبرل ازم نے بھی ہر عہد اور جغرافیہ کے اعتبار سے ارتقائی تبدیلیوں کو قبول کیا۔ ان تین سو سالوں میں لبرل ازم کئی ادوار سے گزرا ہے۔ جنہیں ہم ان تین ادوار میں بانٹ سکتے ہیں۔

۱- کلاسیکل لبرل ازم ( Classical Liberalism) سنہء ۱۸۵۰ تک۔
۲- ماڈرن لبرل ازم ( Modern Liberalism) سنہ ء ۱۸۵۰- ۱۹۷۰ تک۔
۳- نیو لبرل ازم (Neo Liberalism) سنہء ۱۹۷۰ کے بعد سے موجود عہد تک۔

کلاسیکل یا اقتصادی لبرل ازم انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے اوائل تک امریکا و یورپ میں جاری رہا، پھر سنہء ۱۹۳۰ کے عظیم مالی انحطاط کے بعد ایک نیا ماہر اقتصادیات سامنے آیا، جس کا نام جوہن مینرڈ کینز Keynes تھا۔ کینز نے اس تصور کو چیلنج کیا کہ سرمایہ داروں کے لیے لبرل ازم بہترین پالیسی ہے، اس کا ماننا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام کی افزائش کے لیے مکمل روزگار ضروری ہے اور روزگار میں اضافہ حکومت اور سینٹرل بینکوں کی مداخلت کے ذریعے ہی ممکن ہوسکتا ہے۔

پرانے لبرل ازم کا آغاز چونکہ اپنی بنیاد میں اقتصادی معاملات میں حکومت کی مداخلت کو ختم کر دینا تھا یعنی، مینوفیکچرنگ پر پابندیاں نہ لگائی جائیں، کامرس یا کاروبار کی راہ میں رکاوٹیں نہ کھڑی کی جائیں، کوئی محصول یا ٹیکس نہ لگایا جائے۔ آزاد تجارت کسی بھی قوم کی معیشت کو ترقی دینے کا بہترین طریقہ ہے۔ کوئی بھی کنٹرول نہ ہونے کے حوالے سے ان تصورات کو اقتصادی معنوں میں لبرل کہا گیا تھا۔ فرد کی آزادی کے اس تصور نے آزاد کاروبار اور آزاد مقابلے کی حوصلہ افزائی کی اور یوں سرمایہ داروں کو من چاہا منافع کمانے کی آزادی مل گئی۔

نیو لبرل ازم Neo Liberalism :

نیو لبرل ازم کا نفاذ کا سہرا لمبے عرصے تک برطانیہ پر حکمرانی کرنے والی مارگریٹ تھیچر اور امریکہ میں قریب ۸ برس تک حکمران رونالڈ ریگن کو جاتا ہے۔ ایسا پہلی بار دنیا نے دیکھا کوئی اکانومی آئیڈ یا پیش کیا گیا ہو اور اس کا عملی نفاذ فوری طور پر ریاست میں نظر آجائے۔ ابتدا میں ان پالیسیوں سے بظاہر بہت سے لوگوں کی زندگی میں بہتری آئی۔ سنہء ۱۹۸۰ سے پہلے قریب ۶۰ برس (ماڈرن لبرل ازم کے دورانیے میں) عالمی سطح پر تنخواہوں اور دولت میں ناہمواری کم ہوتی رہی، جو خوش کن تھی، اس اقتصادی نظریئے کو وسیع پیمانے پر قبول بھی کیا گیا کہ حکومتوں کو عوام کی بھلائی کے لیے کام کرنا چاہیے۔ لیکن گزشتہ پچیس سے تیس سالوں کے سرمایہ داری بحران، سکڑتے ہوئے منافع نے کارپوریٹ اشرافیہ کو اقتصادی لبرل ازم کے احیا پر اکسایا۔ یوں نیولبرل ازم سامنے آیا جو عالمگیریت کی وجہ سے ساری دنیا میں پھیل گیا۔ لیکن نیولبرل ازم کے آنے کے بعد یہ اس نظام کی خود غرضی اور انفرادی سطح پر فائدہ مند ہونے کا اصل روپ سامنے آنے لگا، اور نیو لبرل ازم کے آغاز کے بعد سے معاشی ناہمواری میں پھر سے شدت سے اضافہ ہونے لگا، اور اس کا تسلسل آج تک جاری ہے۔

نیولبرل ازم کے بنیادی اہم نکات یہ ہیں:

۱۔ مارکیٹ کی حکمرانی:
نجی کاروبار کو حکومت کی عائد کردہ پابندیوں سے آزاد کرنا خواہ اس سے کتنا ہی سماجی نقصان کیوں نہ ہو۔ بین الاقوامی تجارت اور سرمایہ کاری کو بڑھاوا دینا۔ محنت کشوں کی یونینیں ختم کرکے ان کے معاوضے کو کم کرنا۔ سالہا سال کی جدوجہد کے بعد محنت کشوں نے جو حقوق حاصل کیے تھے، ان کو ختم کرنا۔ قیمتوں پر کسی قسم کا کنٹرول نہ ہونا۔ مختصر یہ کہ سرمائے، اشیا اور خدمات کی نقل و حرکت کی مکمل آزادی۔ نیولبرل ازم کی اچھائی پر قائل کرنے کے لیے یہ سمجھایا جاتا ہے کہ اقتصادی گروتھ یا بڑھوتری میں اضافے کا بہترین طریقہ ایک ایسی مارکیٹ ہے جس پر کسی قسم کے ضابطوں کا اطلاق نہ ہوتا ہو اور جس سے بالآخر سب کو فائدہ پہنچے گا۔ یہ ریگن کی رسد کی بڑھوتری کی بات اور رس رس کر نیچے پہنچنے والی اقتصادیات ہے لیکن بد قسمتی سے دولت زیادہ نیچے نہیں پہنچ پائی۔

۲۔ سرکاری اخراجات:
ریاستی کار برائے سماجی خدمات جیسے تعلیم، صحت کی سہولتوں اور غریبوں کی مدد یہاں تک کہ سڑکوں اور پلوں کی دیکھ بھال اور پانی کی فراہمی میں کمی کرنا اور یہ بھی حکومت کے کردار میں کمی کے نام پر ہوتا ہے مگر وہ کاروبارکے لیے دی جانیوالی سرکاری مراعات کی مخالفت نہیں کرتے۔

۳۔ ڈی ریگولیشن:
ہر اس چیز کی سرکاری ریگولیشن میں کمی کرنا جس سے منافع میں کمی آسکتی ہو، اس میں کام کے دوران ماحولیاتی تحفظ بھی شامل ہے۔

۴۔ نجکاری:
سرکاری ملکیت والے اداروں اور سروسز کو نجی سرمایہ کاروں کے ہاتھ فروخت کرنا۔ اس میں بینک، کلیدی صنعتیں، ریل روڈ، ٹول ہائی ویز، بجلی و توانائی کے ادارے، سکول، اسپتال یہاں تک کہ تازہ پانی بھی شامل ہے، گو کہ ایسا عام طور پر کارکردگی کو بہتر بنانے کے نام پر کیا جاتا ہے جس کی اکثر ضرورت بھی ہوتی ہے لیکن اکثر صورتوں میں اس کا نتیجہ دولت کا چند ہاتھوں میں جمع ہونے کی صورت میں نکلتا ہے اور عوام کو اپنی ضرورت کی چیزیں پہلے سے مہنگے داموں خریدنی پڑتی ہیں۔

۵۔ عوامی بھلائی یا کمیونٹی کے تصور کا خاتمہ :
عوامی بھلائی یا کمیونٹی کے تصور کا خاتمہ کرنا اور اس کی جگہ انفرادی ذمہ داری کی بات کرنا، معاشرے کے غریب ترین افراد پر دباؤ ڈالنا کہ وہ اپنے مسائل کا حل خود ہی ڈھونڈیں, (ویسے آج کل سارے موٹیویشنل چمونے یہی کام کررہے ہیں) جیسے تعلیم، سماجی تحفظ، طبی سہولتوں کے فقدان جیسے مسائل اور اگر وہ ایسا نہ کر سکیں تو پھر انہیں کام چور اور نکما قرار دیدیا جاتا ہے۔ ویسے بھی دیکھا جائے تو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے طاقتور مالیاتی اداروں نے دنیا بھر میں نیولبرل ازم کو مسلط کر ہی دیا ہے۔

نیو لبرل ازم کے رو بہ عمل ہونے کی پہلی واضح مثال چلی میں دیکھنے میں آئ تھی۔جب ایلینڈے کی مقبول منتخب حکومت کا تختہ سی آئی اے کی مدد سے سنہء ۱۹۷۳ میں الٹا گیا تھا جس کے بعد دوسرے ملکوں کی باری آئی، اور سب سے بدترین اثرات میکسیکو میں دیکھنے میں آئے تھے، جہاں نیو لبرل پالیسیوں کے نفاذ کے پہلے سال ہی محنت کشوں کی اجرتیں کم ہوکر آدھی رہ گئیں تھیں اور بنیادی ضروریات زندگی کی اشیاء کی قیمتوں میں ۸۰ فی صد تک اضافہ ہوا تھا، چھوٹے اور درمیانے درجے کے بیس ہزار کاروبارختم ہو گئے تھے اور ایک ہزار سرکاری اداروں کی نجکاری کر دی گئی تھی۔

بقول شخصے نیو لبرل ازم کا مطلب تیسری دنیا کے ممالک کو پھر سے نو آبادیاتی شکل میں لانا ہے۔ لاطینی امریکا، افریقہ اور ایشیائی ممالک میں آپ کو ایسی بہت سی مثالیں ملیں گی اور غربت میں تسلسل سے اضافہ دیکھنے میں ملے گا، بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ موجودہ دور کے سرمایہ داری کے نظام کو ہی نیو لبرل ازم کہا جاتا ہے تو شاید بے جا نہ ہوگا، اور اس مضمون کا مقصد بھی موجود عہد کے نیولبرل ازم پر روشنی ڈالنا ہے، نیو لبرل ازم دراصل ان اقتصادی پالیسیوں کا مجموعہ ہے جن پر سرمایہ دار ممالک گزشتہ پچیس سے تیس برسوں سے کاربند ہیں۔ یہ لبرل ازم کا تصور فلاح کا دعوی کرتا تو نظر آیا لیکن اس کی پشت پر بھی معاشی فوائد ہی رہے، جو عوام کے نہیں بلکہ خاص اشرافیہ کے ہی تھے، یورپ سے شروع ہونے والے اس نیولبرل ازم سے وہاں کے جاگیردار اور سرمایہ دار ہی اصلا ً مستفیض ہوئے۔

سماجی جغرافیہ دان (geographer social) ڈیوڈ ہاروے اس کا خاکہ یوں پیش کرتا ہے
”سیاسی معاشی عملی ضابطہ عمل (practices) کا وہ نظریہ جو تجویز کرتا ہے کہ انسانوں کی فلاح کو ایک ایسے رسمی ڈھانچے کے اندر، جس کی خصوصیت نجی ملکیت کے محکم حقوق، آزاد منڈیاں اور آزاد تجارت ہو، انفرادی کاروباری تنظیم کاری (انٹرپرینیور شپ ) کی آزادیاں دے کر اور اسے باہنر بنا کر سب سے بہتر انداز میں آگے بڑھایا جا سکتا ۔ نیولبرل ریاستیں ضمانت دیتی ہیں، ضرورت پڑنے پر طاقت کے استعمال کے ذریعے بھی منڈی کے ’مناسب افعال‘ کی اور جہاں ضرورت ہو اسے پیدا کرتی ہیں (مثلاً زمین، پانی، تعلیم، صحت، سوشل سیکورٹی یا ماحولیاتی آلودگی)۔ منڈیوں کی حرمت کی ضمانت ہی ریاست کے جائز افعال کی حد سمجھی جاتی ہے اور ریاستی مداخلت ہمیشہ منڈیوں کے ماتحت ہوتی ہے۔ نہ صرف سامان اور خدمات کی پیداوار بلکہ سارا انسانی ڈھنگ منڈی کے نصرام تک محدود ہوجاتا ہے۔ منڈی بذاتِ خود ایک مقصد بن جاتی ہے اور چونکہ ریاستوں کا جائز فعل منڈیوں کا دفاع اور انہیں نئے حلقہ اثر میں لے جانا ہوتا ہے اس لیے اگر لوگ ایسا فرد کو منتخب کریں کہ جو منڈیوں کے ان افعال میں رکاوٹ ڈالے تو جمہوریت احتمالی مسئلہ بھی بن جاتی ہے یا انسانی endeavor کے لیے مخصوص دائرے (مثلاً تعلیم اور صحت) منڈی کی منطق کے لیے مسئلہ بن سکتے ہیں۔ اسی لیے ایک خالصتاً نیولبرل ریاست فلسفیانہ لحاظ سے منڈی کو اختیار دیتی ہے، یہاں تک کہ اپنے شہریوں سے بڑھ کر۔ بطور نظریہ نیو لبرل ازم اتنا ہی یوٹوپیائی (خیالی) ہے جتنا خیالی کمیونزم۔ حقیقی دنیا میں یوٹوپیائی نیولبرل ازم کا اطلاق بگڑے ہوئے سماج کی طرف لے جاتا ہے جیسا کہ یوٹوپیائی کمیونزم کے اطلاق نے کیا تھا۔

نیولبرل حکومت دراصل کارپوریشنوں اور بینکوں کی حکومت ہوتی ہے اور کارپوریشنیں اور بینک جمہوری ادارے نہیں ہوتے۔ ان کا اقتدار نظم بڑھوتڑی برائے بڑھوتری سرمایہ کا اقتدار ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ میڈیا اور تعلیم کے ذریعے وہ جمہوری عمل کو ایسی انتظامی اور قانونی ساخت میں جکڑ لیتے ہیں جو عوامی رائے کو سرمایہ دارانہ حکمت عملیوں کی تصدیق کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ پچھلی چار دہائیوں میں نہ صرف غریب سے امیر طبقات کی طرف دولت کی منتقلی کا عمل شدت سے تیز ہوا ہے بلکہ دولت مند طبقات کے اندر بھی یہ عمل جاری ہے جس میں پیداوری عمل اور سہولیات کے شعبوں میں کام کر کے دولت کمانے والے امیر طبقات سے اثاثہ جات اور سرمائے کے مالک امیر طبقات کی طرف کرائے اور سود کی شکل میں دولت کی منتقلی شامل ہے۔ کرائے اور سود کی شکل میں دولت کمانے کے عمل نے محنت کر کے دولت کمانے کے عمل پر فیصلہ کن برتری حاصل کرلی ہے۔

اس قانونی اور انتظامی شکنجوں سے نکلنا آج کے دور میں اور مشکل بنا دیا گیا ہے کیونکہ کارپوریشنوں اور بینکوں کا تسلط عالمی ہوچکا ہے اور وہ عالمی انتظامی صف بندی اور قانون سازی کو ملکی سیاسی نظام پر مسلط کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہوچکا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ نمائندہ جمہوریت تو ملکی ریاست تک محدود ہے۔ سرمایہ دارانہ عالمی نظم اقتدار جو کہ قطعاً جمہوری نہیں قومی جمہوری اقتدار کو مقید کرتا ہے اور اس عالمی سرمایہ دارانہ استبدادی نظام کی پشت پر استعمار و نو آبادیاتی نظام کی ہمہ گیر قوت ہے۔ اشتراکیت کی طرح نیو لبرل ازم بھی ایک ایسی بلا کا نام ہے جو ناکام تو ہوگیا ، لیکن پے در پے غلافوں میں لپٹا نظریات اور پالیسیوں کا ایسا تسلسل ہے جس کو سمجھنا اتنا آسان نہیں، یہ سرمایہ داری، نو آبادیاتی اور سامراجیت ایک ایسی تثلیث ہے ۔ جس نے آج کی دنیا کو معاشی بحران اور عالمی ماحولیاتی تباہی کے ایسے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ اگر اس کا ادراک نہ کیا گیا تو موجود عہد کے کرونا وباء جیسی کئی نئی صورتحال کا ہمیں سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

سنہء 2018 کی ایک پرانی تحریر، معمولی ردو بدل کے ساتھ ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں