0

6 ججز کے خط پر ازخود نوٹس: میں نے لکھ کر دیا تھا کہ دھرنے کے پیچھے جنرل فیض حمید تھے، چیف جسٹس پاکستان

سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت جاری ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے، جس میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان بینچ کا حصہ ہیں، جب کہ افغان بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ حکومتی جانب سے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان دلائل دے رہے ہیں۔سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی سفارشات پڑھ کر سنائیں۔سپریم کورٹ آف پاکستان میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت جاری ہے۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ 6 رکنی بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ شاید لوگوں کو عدلیہ کی آزادی سے زیادہ اپنے خیالات کے پرچار میں دلچسپی ہے۔ چیف جسٹس کو تنقید کا نشانہ بنایااگر کوئی اس عدالت پر اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتا ہے تو وہ بھی مداخلت ہے اور مداخلت اندر سے یا باہر سے ہو سکتی ہے، مداخلت حساس اداروں کی ہو سکتی ہے، آپ کے ساتھیوں کی، خاندان کی، سوشل میڈیا سے اور کسی بھی طرف سے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم طرز عمل سے دکھائیں گے کہ مداخلت ہوتی ہے یا نہیں، ججز کے فیصلے سے پتہ چلتا ہے کہ مداخلت کتنی ہے اور کتنی آزادی نہیں، ہم نہیں سمجھتے کہ مداخلت کا معاملہ نہیں لیتے۔ سنجیدگی سے اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے اس کی تصدیق کر دی ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیا کہا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمارے پاس اس معاملے کو حل کرنے کا موقع ہے، اندرونی دباؤ ہو یا بیرونی دباؤ، ہمیں اسے دور کرنا ہے، ہمیں ہائی کورٹس اور عدلیہ کو بااختیار بنانا ہے، ہمارے پاس اس سے نمٹنے کے لئے. ایک سنہری موقع ہے اور ہمیں ایک مخصوص انداز اپنانا ہوگا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ یہ صرف مداخلت نہیں بلکہ ہمارے دو ججز کو نشانہ بنایا گیا۔ کیا جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہمارے ساتھ جو ہو رہا ہے اس کا نوٹس لے لیا ہے جب کہ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ مداخلت کے آگے رکاوٹ ڈالنا ہو گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر میرے کام میں مداخلت ہو اور میں اسے روک نہیں سکتا۔ تو مجھے گھر جانا چاہیے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں