168

ہر کردار کو خود پر طاری کر لیتی ہوں، ماورا حسین

کراچی:اداکارہ ماورا حسین نے کہا ہے کہ نیگٹو کردار سے آپ جلدی لوگوں کی نظروں میں آجاتے ہیں مگر ان کرداروں میں سب سے بڑی خرابی یہ ہوتی ہے کہ لوگ آپ کواسی نیچر کا خراب انسان سمجھنے لگتے ہیں حالانکہ وہ یہ نہیں سوچتے کہ یہ تو محض ایک ڈرامہ ہے اور یہ صرف ایک لکھا ہوا فرضی کردار ہے۔

تفصیل کے مطابق بھولی بھالی صورت والی ماورا حسین یوں توشوبز میں بہت چھوٹی عمر میں ہی آگئی تھیں تاہم انہوں نے ایکٹنگ کا باقاعدہ آغاز 2012ء میں کیا۔ ان کے نمایاں شوز میں یہاں پیار نہیں ہے، ایک تمنالاحاصل سی، میں گناہ گار نہیں، وغیرہ نمایاں ہیں۔

ٹی وی کے علاوہ ماورا نے بھارت و پاکستان کی فلمیں بھی کی ہیں اور بھارت میں تو پہلی ہی فلم صنم تیری قسم میں وہ سولو ہیروئن تھیں تاہم فلمی کیریئر اب تک قابل ذکر نہیں رہا اور اب تو چونکہ کورونا وبا کے باعث فلم انڈسٹری ہی ٹھپ پڑی ہے تو ماورا کے فلمی کیریئر کے حوالے سے کوئی امید بھی نہیں باندھی جا سکتی۔

دنیا: شوبز کی رنگا رنگ دنیا میں اپنی آمد کے حوالے سے کچھ بتائیں؟

ماورا حسین: بہت چھوٹی عمر سے ہی اس فیلڈ میں ہوں، شاید آپ کو یقین نہ آئے مگر یہ سچ ہے کہ جب ساتویں جماعت میں تھی تو اس عمر میں پی ٹی وی سے بچوں کے ایک شو کی میزبانی کی اور وہ بھی لائیو شو۔۔۔،اس پہلے شو میں ہی میری پرفارمنس پر سب حیران ہوگئے تھے اور ہر ایک کا یہی کہنا تھا کہ دیکھو اتنی سی بچی نے کتنے اچھے طریقے سے پروگرام کی میزبانی کی ہے۔ اس شو کے بعدمیں اپنی پڑھائی میں مصروف ہوگئی،ویسے مزے کی بات یہ ہی کہ ابتدا ہی میں خاصے بڑے بڑے پروگرامز کی میزبانی کی، ان میں وزیراعظم اور صدر کے لئے ہونے والے خاص پروگرامز بھی شامل ہیں۔

دنیا:وی جے کی حیثیت سے شہرت تو بہن عروہ نے پائی،اس فیلڈ میں آپ پیچھے کیوں رہ گئیں؟

ماورا حسین: کیونکہ عروہ مجھ سے بڑی ہے اور جب عروہ کراچی میں شوبز ورلڈ میں مصروف تھی تومیں ایجوکیشن حاصل کررہی تھی اور سیکنڈ ایئر کی طالبہ تھی، اگر تعلیم کو اہمیت نہ دیتی تو شاید ہوسٹنگ میں آگے ہوتی، جب انٹر کے امتحانات سے فارغ ہوئی تو کراچی آگئی اور ایک روز عروہ کے ساتھ اسٹوڈیو گئی جہاں فوراً اداکاری کی آفر ہوگئی، میں فارغ تو تھی ہی سو انکار نہیں کیا اورایکٹنگ کے شعبے میں آگئی۔

دنیا: تو گویا گھر والوں سے پوچھے بغیر ہی اس آفر پر ہاں کہہ دی؟

ماورا حسین: جی ہاں،ویسے کسی کا ڈر نہیں تھا کیونکہ عروہ میرے ساتھ تھی، گھر آئی تو مما کو اس حوالے سے بتایااوروہ بہت خوش ہوئیں، کیریئر کے ابتدائی سال تک تو میں ایک ہی مقامی چینل میں رہی تھی جہاں مختلف پروگراموں کی میزبانی کیا کرتی تھی۔

دنیا: میزبانی کے بعدایکٹنگ کا تجربہ کیسا رہا؟

ماورا حسین: بہت اچھا۔پہلا سیریل میرے حضور،تھا جو مقامی چینل سے ٹیلی کاسٹ ہوا تھا،اس پہلے سیریل کے ذریعے ہی مجھے بہت اچھا رسپانس ملااور میری پرفارمنس دیکھ کر مزید آفرز آنے لگیں۔

دنیا:آپ نے بہت کم عرصے میں ہر قسم کے کردار کرلیے ہیں، پسندیدہ کیریکٹرز کون سے ہیں؟

ماورا حسین: مجھے تو مثبت کردار ہی اچھے لگتے ہیں اور میں ہی کیا، ہر آرٹسٹ اس قسم کے رولز کرنا چاہتا ہے کیونکہ ایسے کیریکٹرز سے لوگوں کا خوب پیار ملتا ہے، وہ آپ پر اپنی محبتیں نچھاور کرتے ہیں، آپ کی تعریف کرتے ہیں اور یہ سب بہت اچھا لگتا ہے جبکہ منفی کیریکٹرز پر لوگوں کی نفرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مجھے یاد ہے کہ سیریل یہاں پیار نہیں ہے، میں منفی کیریکٹر پلے کیا تھا،کہانی کے مطابق میں اپنی ہی کزن کے شوہر سے شادی کر کے اس کا گھر برباد کردیتی ہوں۔آپ یقین کریں اس منفی کردار پر مجھے لوگوں کی خوب جلی کٹی باتوں کا سامنا کرنا پڑا، جہاں جاتی تھی، عورتیں عجیب عجیب نظروں سے دیکھتی تھیں اور اکثر خواتین تو اپنی نفرت اور غصے کا اظہار ان الفاظ میں کرتی تھیں ’’تمہیں شرم نہیں آتی، اپنی بہن کا گھر تباہ کرتے ہوئے؟‘‘ایسی باتیں سن کر واقعی اچھا نہیں لگتا تھا اور تھوڑی دیر کو یوں محسوس ہوتا تھا جیسے میں واقعی کوئی غلط کام کررہی ہوں۔

دنیا: اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ نیگیٹو کیریکٹرز کا خوب نوٹس لیا جاتا ہے اور اس سے اداکار کو شہرت ملتی ہے تو پھر نیگیٹو کیریکٹرز اچھے ہوئے ناں؟

ماورا حسین: یہ تو ہے کہ پازیٹو سے زیادہ نیگیٹو کردار سے آپ جلدی لوگوں کی نظروں میں آجاتے ہیں مگر ان کرداروں میں سب سے بڑی خرابی یہ ہوتی ہے کہ لوگ آپ کواسی نیچر کا خراب انسان سمجھنے لگتے ہیں حالانکہ وہ یہ نہیں سوچتے کہ یہ تو محض ایک ڈرامہ ہے اور یہ صرف ایک لکھا ہوا فرضی کردار ہے۔

دنیا: تو گویاتم یہ کہنا چاہتی ہو کہ نیگیٹو کیریکٹر سے فنکار خاص طور پرفی میل آرٹسٹ کی ذاتی زندگی پر برے اثرات پڑنے کا خطرہ ہوتا ہے؟

ماورا حسین: جی ہاں بالکل ایسا ہی ہے، لوگ ہمارے کرداروں کی وجہ سے اپنے ذہن میں ہمارا اچھا یا برا امیج بنا لیتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اسکرین پر جو کچھ نظر آتا ہے، وہ سراسر فکشن ہوتا ہے اور حقیقت سے اس کا ذرہ بھر تعلق نہیں ہوتا۔

دنیا: کوئی بھی کردار کرتے ہوئے اسے ایزی لیتی ہو یاخود پر حاوی کرلیتی ہو؟

ماورا حسین: آپ کردار کی بات کرتی ہیں،میری تو یہ عادت ہے کہ کسی بھی کام کو ایزی نہیں لیتی بلکہ اس کا پریشر اتنا لے لیتی ہوں کہ ہر وقت یہی ذہن پر چھایا ہوتا ہے کہ پتا نہیں یہ کام ٹھیک طرح ہوگا یا نہیں؟ اسی طرح جب کوئی کردار کرتی ہوں تو میرا موڈ کردارکے مطابق ہوجاتا ہے مثلاً اگر کوئی رونے دھونے والا کردار ہے تو ہر وقت ڈپریشن میں رہتی ہوں اور اگر کوئی لڑائی جھگڑے والا کیریکٹر کرنا ہو تو کسی نہ کسی سے لڑتی رہتی ہوں، میری اس عادت سے امی بہت پریشان ہوتی ہیں اور اکثر کہتی ہیں کہ اپنے کام کو سیٹ پر چھوڑکر آیا کرو اور گھر میں ایزی رہا کرو۔ دعاکریں کہ میری یہ عادت ختم ہوجائے اور کسی بھی سچوئیشن میں نارمل انسان کی طرح ردعمل کا اظہار کیا کروں۔

دنیا: اپنے مختصر سے فلمی کیریئر کے بارے میں کچھ بتا ئیں؟

ماورا حسین: سب سے پہلی کم بخت،نامی فلم سائن کی جسے حمزہ علی عباسی بنا رہے تھے وہی اس کے ڈائریکٹر بھی تھے مگر یہ فلم کسی وجہ سے بن نہ سکی۔ بھارت میں ایک فلم صنم تیری قسم سولو ہیروئن کے طور پر کی، وہاں مزید کام کرتی مگر دونوں ملکوں کے تعلقات خراب ہو گئے تو پھر ارادہ بدلنا پڑا کیونکہ میں پاکستانی پہلے ہوں اور بعد میں کچھ اور۔۔۔پاکستان میں میری پہلی فلم جوانی پھر نہیں آنی ٹو، ہے جس نے کمائی اور کامیابی کے اگلے پچھلے سبھی ریکارڈز توڑ دیئے تھے لیکن افسوس کہ اس کے بعد کورونا کی ایسی وبا آئی کہ ہماری فلم انڈسٹری اب تک رکی ہوئی ہے اور بیماری کی چوتھی لہر کے بعد تو فوری طور پر کسی بہتری کی امید بھی نہیں کی جا سکتی۔

دنیا: بہت کم عمری میں پریکٹیکل لائف میں آگئیں، جب ماضی پر نظر ڈالتی ہیں تو کیا دیکھتی ہیں کہ کیا کھویا اور کیا پایا؟

ماورا حسین: واقعی بہت چھوٹی عمر میں شوبز ورلڈ میں آگئی اور تب سے کام کررہی ہوں، اس دوران ایک اہم بات یہ سیکھی کہ اگر زندگی میں مواقع ملیں تو انہیں کھونا نہیں چاہیے۔میرا ماننا ہے کہ پریکٹیکل لائف میں آکر انسان کچھ نہیں کھوتا بلکہ صرف اور صرف پاتا ہی ہے، میں نے عزت اور شہرت تو پائی، اس کے ساتھ بہت سے تجربات بھی حاصل ہوئے ہیں جو یقینا میری آگے کی زندگی میں کام آئیں گے۔

دنیا: مستقبل کے بارے میں کیا پلاننگ کررکھی ہے؟

ماورا حسین: اگر آپ کام کے حوالے سے پو چھ رہے ہیں تو ایکٹنگ جاری رکھوں گی، یہ تو اب میرا پروفیشن بن گیا ہے اور اسے چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی اور اگر آپ کا سوال میری پرسنل لائف کے حوالے سے ہے کہ شادی وغیرہ کب کروں گی تو اس پر یہی کہنا چاہوں گی کہ جب رَب کا حکم ہوگا، پیا دیس سدھار جاؤں گی۔ کہا جاتا ہے کہ شادی ایک جوا ہوتی ہے اور میں اس بات پر پورا یقین رکھتی ہوں کیونکہ انسان کو معلوم نہیں ہوتا کہ شادی کے بعد اس کی لائف اچھی رہے گی یا بری؟اب معلوم نہیں میری قسمت میں کیا لکھا ہے، یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے البتہ اتنا کہہ سکتی ہوں کہ شادی میں میری اور گھر والوں کی پسند شامل ہوگی۔

دنیا: آپ خاصی اسمارٹ ہیں۔ کیا خود کوفٹ رکھنے کے لئے ڈائٹنگ وغیرہ کا سہارا لیتی ہیں؟

ماورا حسین: بالکل نہیں،اس فیلڈ میں اکثر لوگ خوب ڈائٹنگ کرتے ہیں تاکہ اسمارٹ رہیں مگر میں ایسا کچھ نہیں کرتی کیونکہ میری جسامت قدرتی طور پر کچھ ایسی ہے کہ جتنا بھی کھالوں، چربی نہیں چڑھتی اور ویسی کی ویسی ہی رہتی ہوں لہٰذا کسی بھی قسم کا کوئی پرہیز نہیں کرتی اور خوب بے فکر ہو کر کھاتی پیتی ہوں بلکہ میرا شمار ان لوگوں میں کیا جانا چاہئے جو کھانے کے لئے جیتے ہیں۔

دنیا: تحائف کا لین دین کیسا لگتا ہے اور زندگی میں کبھی کسی کی طرف سے کوئی سرپرائزنگ گفٹ ملا؟

ماورا حسین: تحائف لینا اور دینا دونوں اچھے لگتے ہیں، اس سے آپس میں محبت بڑھتی ہے، ایک بار مما نے مجھے ایسا سرپرائزنگ گفٹ دیا کہ جس کے بارے میں تصور بھی نہیں کرسکتی تھی، یہ ان دنوں کی بات ہے جب یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا اور مما نے اس خوشی میں مجھے کارکا تحفہ دیا تھا، ان لمحات کو کبھی فراموش نہیں کرسکتی، اس تحفے پر جو میرے اندر خوشی کے جذبات تھے، انہیں لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔

دنیا: گھرداری سے کتنا لگاؤ ہے؟

ماورا حسین: گھرداری سے مراد اگرکھانا پکانے سے ہے تو اس میں بہت کم دلچسپی لیتی ہوں البتہ کھانا کھانے کا بہت شوق ہے، اگر وقت پر اپنا من پسند کھانا نہ ملے تومیرا موڈ آف ہوجاتا ہے۔ کچن میں زیادہ نہیں جاتی تاہم چائے وغیرہ ضرور بنا لیتی ہوں۔

دنیا: زندگی کا کوئی یادگار لمحہ؟

ماورا حسین: ٹیکسلا میں ایک شوتقریباً چار روز تک ہوسٹ کیا تھا جس کا معاوضہ مجھے سولہ ہزار روپے ملا تھا، اس وقت نویں گریڈ میں تھی اوراس کم عمری میں وہ سولہ ہزار روپے میرے لئے بہت معنی رکھتے تھے،اس لمحے کو کبھی نہیں بھول سکتی۔

دنیا: مما کے ہاتھ کی پکی کون سی ڈش اچھی لگتی ہے؟

ماورا حسین: ان کے ہاتھ کے تو تمام ہی کھانے اچھے لگتے ہیں کیونکہ ان میں ماں کا پیار بھرا خلوص جو شامل ہوتاہے۔ روز صبح اٹھتی ہوں تو یہی خواہش ہوتی ہے کہ مما اپنے ہاتھوں سے مجھے بیڈٹی دیں۔

دنیا: کوئی ایسی مرحوم شخصیت جس سے ملاقات کی خواہش پوری نہ ہوپائی ہو؟

ماورا حسین: ارفع کریم، اس ذہین بچی سے ملنے کی شدید تمنا تھی مگر افسوس پوری نہ ہوسکی۔

دنیا: کیا یوم محبت یعنی ویلنٹائن ڈے پر یقین رکھتی ہیں؟ اس کے حوالے سے کیا کہنا چاہیں گی؟

ماورا حسین: اس دن کی مخالف نہیں ہوں، محبت کی علامت کے طور پراسے منایا جاتا ہے اور میں سمجھتی ہوں اس میں کوئی برائی نہیں، ویلنٹائن ڈے بالکل منانا چاہیئے‘ میں تو بہت شوق سے اس دن کو مناتی ہوں۔

دنیا: گھر میں آئیڈیل شخصیت کون ہے؟

ماورا حسین: بڑی بہن عروہ، وہ میرے لئے رول ماڈل ہیں اور اسی کی طرح آگے بڑھنے کی تمنا ہے۔

دنیا: پسندیدہ ملک؟

ماورا حسین: جرمنی

دنیا: پسندیدہ ریسٹورنٹ؟

ماورا حسین: اسلام آباد کا تقریباً ہر ریسٹورنٹ پسند ہے۔

دنیا: شاپنگ کے لئے فیورٹ جگہ؟

ماورا حسین: دبئی جسے دنیا شاپنگ پیراڈائز یعنی خریداروں کی جنت کہتی ہے۔

تحریر: مرزا افتخار بیگ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں