147

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کیلئے کرسی بچانا مزید مشکل، تحریک عدم اعتماد جمع

کوئٹہ: (نیوزڈیسک) وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے لیے کرسی بچانا مزید مشکل ہو گیا، حکومت کے 14 ناراض ارکان نے تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی ہے۔

تفصیلات کے مطابق بلوچستان میں سیاسی بحران شدت اختیار کر گیا ہے، بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے ناراض اراکین نے وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروا دی ہے، اس تحریک عدم اعتماد پر 14 اراکین کے دستخط ہیں۔ تحریک عدم اعتماد جمع کرانے والوں میں ظہور بلیدی، سردار عبدالرحمن کھیتران، نصیب اللہ مری اور دیگر شامل تھے۔

تحریک عدم اعتماد میں کے متن میں کہاگیاہے کہ تین سالہ دور کے دوران وزیراعلی جام کمال کی خراب حکمرانی کے باعث بلوچستان میں شدید مایوسی ،بے روزگاری ،بدامنی اوراداروں کی کارکردگی متاثرہوئی ۔وزیراعلی اہم معاملات بغیر مشاورت کے چلاتے رہے جس سے صوبے کو ناتلافی نقصان پہنچا۔ کابینہ کے اراکان وزیراعلی کو وقتافوقتاسمجھاتے رہے مگرانہوں نے کوئی توجہ نہیں دی۔

متن کے مطابق جام کمال نے وفاقی حکومت کے ساتھ صوبے کے حقوق کے حوالے غیرسنجیدہ رویہ اپنایاجس سے صوبے میں گیس، بجلی، پانی اور معاشی شدید بحران پیداہوا، نیز صوبے میں بیڈ کورننس کی وجہ سے بیوروکریٹس ،ڈاکٹر، ، طلباء سراپااحتجاج ہیں لہذا مطالبہ کرتے ہیں وزیراعلی کی کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں عہدے سے ہٹا کرانکی جگہ ایوان میں اکثریت کے حامل رکن اسمبلی کو وزیراعلی قائدایوان منتخب کیاجائے۔ تحریک عدم اعتماد وزیرخزانہ ظہوربلیدی کی قیادت میں جمع کرائی گئی۔

تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کے بعد دیگر اراکین کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ظہور بلیدی کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد پر 14 اراکین اسمبلی کے دستخط ہیں، بلوچستان اسمبلی کے اکثریتی ممبران نے جام کمال خان کے خلاف عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے، اسپیکر بلوچستان جلد اسمبلی اجلاس بلائیں اور تحریک عدم اعتماد پیش کریں، اور ہم وزیر اعلیٰ جام کمال کو پھر تنبیہ کرتے ہیں کہ وہ خود استعفیٰ دے دیں۔

گورنر بلوچستان سید ظہور آغا بلوچستان اسمبلی سیکرٹریٹ میں وزیراعلی جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائے جانے کے بعد اچانک اسلام آباد روانہ ہوگئے جہاں انکی اعلی شخصیات سے ملاقات متوقع ہے۔

گورنر وزیراعظم سے بھی ملاقات کریں گے۔ ان ملاقاتوں میں وزیراعلی بلوچستان کے خلاف جمع کرائی جانے والی تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے مشاورت ہوگی۔

دوسری طرف وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کا اعدادوشمار کے کھیل میں سیٹ بچانا مشکل ہے، اپوزیشن اور ناراض ارکان کی تعداد 38 ہوگئی، تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے 33 ووٹ درکار، وزیراعلیٰ بلوچستان کے حامی ممبرز کی تعداد 27 رہ گئی

یاد رہے کہ بلوچستان اسمبلی میں بی اے پی کے 24، پی ٹٰی آئی 7، اے این پی 4، بی این پی عوامی 3،ہزارہ ڈیموکرٹیک پارٹی 2 اور جے ڈبلیو پی کاایک رکن ہے۔ اپوزیشن کے جے یوآئی 11، بی این پی مینگل 10، پی ایم ایل نون کاایک، پی کے میپ کا ایک اور آزاد ایک آزاد رکن اسمبلی ہے۔

اُدھر اپوزیشن کے رکن اسمبلی نواب اسلم رئیسانی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کالے بادل وفاق میں بھی آ گئے، سپیکر نیشنل اسمبلی بھی خطرے میں ہے، سنا ہے نئی جماعت بننے جا رہی ہے، نظریہ کیا ہوگا، شمولیت کون کریگا کچھ پتہ نہیں، لوگ یہی ہوں گے، ہم تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لئے کوشاں ہیں جو کامیاب ہوا نظر آ جائیگا، اپوزیشن جمہوری عمل کے علاوہ کسی کے ساتھ نہیں، جام کو چاہیے چلا کاٹیں، کھجور اور پانی مجھ پر ہے، جام یاد کرے، وہ لوگ جو قائد قائد کہا کرتے تھے انہی نے جام کا قائدہ پھاڑ دیا۔

اس سے قبل گورنر بلوچستان نے تینوں ناراض وزرا کے استعفے منظور کرلیے تھے۔ گورنر بلوچستان سید ظہور آغا نے ناراض صوبائی وزرا، مشیروں اور پارلیمانی سیکرٹروں کے استعفے منظور کرلئے ہیں، مستعفی ہونے والوں میں ظہور بلیدی، عبدالرحمان کھیتران اور اسد بلوچ شامل ہیں۔

مشیروں میں اکبر آسکانی، محمد خان لہڑی کے استعفے منظور کردئیے گئے جکبہ گورنر بلوچستان نے 4 پارلیمانی سیکرٹیریز، لیلیٰ ترین ، بشریٰ رند، ماہ جیں اور لالہ رشید بلوچ کے بھی استعفے منظورکئے ہیں۔

دو روز قبل اجلاس کے دوران ناراض اراکین نے دو ٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے جام کمال کے ساتھ مزید نہ چلنے کا اعلان کیا تھا۔

ناراض اراکین نے موقف اختیار کیا تھا کہ وزیراعلی جام کمال کے ساتھ نہیں چل سکتے۔ جام کمال کو اب مزید وقت نہیں دیں گے، وہ اکثریت کھو چکے ہیں۔

دو روز قبل وزیراعلیٰ بلوچستان اپنے خلاف عدم اعتماد رکوانے کے لئے متحرک ہوگئے تھے۔ جام کمال نے کسی صورت بھی استعفیٰ نہ دینے کا اعلان کر دیا تھا۔

مزید برآں صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ملک سکندر ایڈووکیٹ نے کہا کہ تین سالوں سے تمام غیر جمہوری عمل حکومت نے اپوزیشن کے ساتھ کیا ہے۔ مئی سے حکومت اور حکومت کے درمیان کشیدگی شروع ہوئی۔ ہر موڑ پر اپوزیشن کے امتیازی سلوک کیاجارہاہے۔ چودہ ستمبر کو عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی، وزیراعلی کے پاس اکثریت نہیں ہے۔ جام کمال کے بیان پر وزہراعلی کہلانے کی اہل نہیں۔ گورنر تمام صورتحال سے آگاہ ہیں وہ اپنی آئینی ذمہ داری نبھائیں اور جام کمال سے کہیں کہ وہ اعتماد کا ووٹ لیں۔ وزیراعلی کے ساتھ سات آٹھ لوگ ہیں۔ گورنر کل کےلئے اسمبلی کا اجلاس طلب کریں ۔

اُدھر ترجمان بلوچستان حکومت لیاقت شاہوانی نے کہا کہ بلوچستان میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے وزیر اعلی کے استعفی کے مطالبہ کو یکسر مسترد کر تے ہیں، جام کمال خان منتخب وزیر اعلی ہیں وہ معمولات حکومت احسن انداز میں چلارہے ہیں، وزیر اعلی کیخلاف کوئی ایسے الزامات نہیں جن کی بنیاد پر اخلاقی گراونڈ پہ استعفی دیا جائے، وزیر اعلی استعفی نہیں دینگے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں