172

خلائی دوربین جیمز ویب تاریخ رقم کرنے روانہ ہوگئی

دنیا کی جدید ترین اور سب سے بڑی خلائی دوربین ’’جیمز ویب‘‘ کو مدار میں چھوڑے جانے کے لیے خلا میں روانہ کردیا گیا ہے۔

جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ کو یورپین خلائی ادارے کے زیرِ انتظام کورو اسپیس پورٹ فرینچ گیانا، فرانس میں آریان فائیو راکٹ کے ذریعے زمین سے 15 لاکھ کلومیٹر دور خلا میں چھوڑا گیا جو زمین کے چاند سے فاصلے سے بھی چار گنا زیادہ ہے۔

جیمز ویب ٹیلی اسکوپ 10 ارب ڈالر لاگت کا امریکی خلائی ادارے ’’ناسا‘‘، یورپی خلائی ادارے ’’ایسا‘‘ اور کینیڈین خلائی ادارے ’’سی ایس اے‘‘ کا مشترکہ منصوبہ ہے۔

اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچنے میں 30 برس کا عرصہ لگا اور اسے 21 ویں صدی کے سب سے بڑے سائنسی منصوبوں میں سے ایک قرار دیا جا رہا ہے۔

سائنسدانوں کو امید ہے کہ جیمز ویب ٹیلی اسکوپ خلا میں ان ستاروں کو ڈھونڈ پائے گی جو ساڑھے 13 ارب سال پہلے کائنات میں سب سے پہلے روشن ہوئے۔

یہ دیو ہیکل خلائی دوربین کائنات کے ان حصوں کی دیکھنے کی کوشش بھی کرے گی جہاں تک ہبل ٹیلی اسکوپ کی نظر بھی نہیں پہنچ سکی ہے۔

جیمز ویب ٹیلی اسکوپ زمین سے دور موجود سیاروں کے ماحول اور اُن میں موجود گیسوں کی جانچ کے ذریعے زندگی کے شواہد تلاش کرسکے گی۔

خلا تک پہنچنے کے لیے جیمز ویب کو 27 منٹ کا ایک کنٹرولڈ دھماکے جیسا سفر طے کرنا ہوگا۔

راکٹ لانچ کے تقریباً 30 منٹ بعد راکٹ سے علیحدہ ہونے پر اس کو 344 ایسے سخت لمحات سے گزرنا ہوگا جو اس کی صلاحیتوں پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔

امریکی خلائی ادارے ناسا کے منتظم بل نیلسن کا کہنا ہے کہ بڑے فائدے میں بڑا خطرہ بھی مول لینا پڑتا ہے۔

جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ مدار میں اب تک بھیجے جانے والے سب سے بڑے فلکیاتی آئینے کا استعمال کرے گی جس کا قطر ساڑھے 6 میٹر ہے۔ ٹینس کورٹ جتنے بڑے اِس فلکیاتی آئینے کو مکمل طور پر کھلنے میں تقریباً دو ہفتے لگیں گے۔

ناسا کے گوڈارڈ اسپیس فلائٹ سینٹر کی ماہر فلکیات ڈاکٹر امبر نکول اسٹرون کہتی ہیں کہ ایسے بہت سے سوال جن کے بارے میں ہم نے ابھی تک سوچا بھی نہیں، اُن کی کھوج اِس دوربین سے ممکن ہو پائے گی۔

ٹیلی اسکوپ کے خلا میں پہنچنے کے بعد اِسے کھولنے کا ایک مُشکل نظام ہے جس کے بعد اسے ٹھنڈا ہونے، فلکیاتی آئینوں کو ترتیب میں لانے اور آلات کو آن کرنے میں مہینوں لگ جائیں گے۔

جیمز ویب ٹیلی اسکوپ تاریخ میں پہلی بار خلا میں بھیجی گئی ہبل ٹیلی اسکوپ کی جگہ لے گی جسے 1990 میں ناسا نے خلا میں بھیجا تھا۔

جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کائنات کے ان حصوں کی دیکھنے کی کوشش کرے گی جنہیں ہبل اسپیس ٹیلی اسکوپ بھی نہیں دیکھ پائی۔

1990 میں ہبل دوربین کے خلا میں بھیجے جانے سے سائنسدانوں کو یہ معلوم ہوا کہ کائنات کی عمر 13.8 ارب سال ہے اور کائنات نہ صرف پھیل رہی ہے بلکہ اس کے پھیلنے کی رفتار میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اِس دریافت پر نوبل انعام بھی دیا گیا تھا۔

ہبل دوربین کے ذریعے ہی پتا چلا کہ کہکشاؤں کے مرکز میں انتہائی بڑے بلیک ہولز موجود ہیں اور ہمارے نظامِ شمسی سے باہر بھی سیاروں کا وجود ہے۔

جیمز ویب کا فلکیاتی آئینہ ہبل سے کئی گنا بڑا ہے۔ اس میں روشنی کو جمع کرنے کی زیادہ صلاحیت موجود ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ ہبل کے مقابلے میں وقت میں زیادہ پیچھے تک سفر کرسکتی ہے۔

ناسا کا کہنا ہے کہ یہ دوربین ماضی میں جھانک کر ابتدائی کائنات کی اولین کہکشاؤں کو دیکھ سکے گی۔

ڈاکٹر امبر نکول اسٹرون کہتی ہیں کہ سائنسدان جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ کے ذریعے پہلے سال کیے جانے والے مشاہدات کے بارے میں منصوبہ بندی کرچکے ہیں۔ اِس دوربین سے خلا اور وقت کے درمیان موجود ہر چیز کا مشاہدہ کیا جائے گا۔

جیمز ویب ٹیلی اسکوپ منصوبے میں برسوں کی تاخیر اور اندازوں سے اربوں ڈالر زیادہ خرچ ہوئے۔ کئی بار منصوبے کو منسوخ کرنے کے بھی مطالبے ہوئے مگر سائنسدان ڈٹے رہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں