183

ناسا کے خلائی جہاز نے سورج کو چھو کر تاریخ رقم کردی

خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ناسا کے خلائی جہاز نے سورج کے ہالے میں 5 گھنٹے رہ کر دنیا میں اپنی خلائی برتری ثابت کردی ہے۔

ناسا کے مطابق 2018 میں سورج کے گرد موجود کورونا (روشنی کا ہالہ جو گرہن کے وقت سورج کے گرد نظر آتا ہے) پر تحقیقات کے لیے بھیجے گیا خلائی جہاز پارکر سولر پروب سورج کو چھونے والا پہلا اسپیس کرافٹ بن گیا ہے۔

رواں سال اپریل میں پارکر پروب سورج کی سطح سے ساڑھے 6 ملین میل کے فاصلے پر اس جگہ پہنچ گیا تھا درجہ حرارت 20 لاکھ ڈگری فارن ہائیٹ ہوتا ہے۔ حالانکہ کسی بھی شے کا سورج کے مدار میں اتنے قریب پہنچنا بہت مشکل ہے۔

ناسا کا اس بابت کہنا ہے کہ خلائی جہاز پارکر پر ساڑھے 4 انچ کی ہیٹ شیلڈ بیرونی سطح پر موجود الیکٹرانکس اور دیگر آلات کو تحفظ فراہم کرتی ہے، لیکن اتنے شدید درجہ حرارت کے باوجود پارکر کے انسٹرمینٹس( آلات) نے حرارت سے مزاحمت کرتے ہوئے کسی غلطی کے بنا اپنی پیمائش جاری رکھی جو کہ انجیئرنگ کا ایک شاہکار ہے۔

خلائی جہاز پارکر سولر پروب نے خود کو نقصان پہنچائے بنا یہ کارنامہ کیسے سر انجام دیا؟

کیمبرج میں ہارورڈ اسمتھ سونیئن مرکز برائے فلکی طبیعات (اجسام فلکی اور ان کی حرکات کا مطالعہ) کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ پارکر کے بیرونی حصے پر سولر پروب کپ کے نام سے موجود ٹولز نے حرارت سے تحفظ کے لیے شیلڈ ( رکاوٹ) کے طور پر کام کیا اور کچھ تحفظ سورج کے پلازمہ (آیونز اور الیکٹرانز کا ایک مکسچر جس سے ایک الیکٹرک ڈسچارج ہوتا ہے) سے لیا۔

سائنسی جریدے فزیکل ریویو لیٹرز میں پارکر مشن کے نتائج پر شایع ہونے والی رپورٹ کے مطابق پارکر رواں سال 28 اپریل کو تین مرتبہ کورونا ( سورج کے گرد موجود ہالے) میں داخل ہوا، ایک موقع پر پارکر 5 گھنٹوں کے لیے سورج کے قریب ترین رہا اور مقناطیسی میدان سے تحقیق کے لیے پارٹیکلز کے نمونے بھی لیے۔

ماہر فلکیات انتھونی کیس کا کہنا ہے کہ سولر پروب کپ سورج کی تپش سے جھلس کر سرخی مائل زرد ہوگئے تھے بالکل اسی طرح جیسے لوہے کو 1800 ڈگری پر گرم کیا جائے تو وہ سرخ ہوجاتا ہے۔ لیکن یہاں ہمیں درجہ حرارت اور تپش میں موجود واضح فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

درجہ حرارت میں پارٹیکلز کی حرکت کرنے کی پیمائش کی جاتی ہے کہ وہ کیسے حرکت کر رہے ہیں، جب کہ تپش توانائی کی مقدار ہے جسے پارٹیکلز حرکت کے دوران منتقل کر رہے ہیں۔

اس کی سادہ سی مثال اس طرح لے سکتے ہیں کہ جس دن درجہ حرارت 100 ڈگری پرہو تو لوگوں کی جلد پر بہت تپش محسوس ہوتی ہے کیوںکہ ہوا میں موجود مالیکیولز تیزی سے ان کے جسم سے ٹکڑا کر حرارت پیدا کرتے ہیں۔ جتنی تیزی سے وہ حرکت کریں گے آپ کو اتنی ہی تپش محسوس ہوگی۔

ہم اس طرح درجہ حرارت کو محسوس کرتے ہیں۔ لیکن خلا میں میں پارٹیکلز بہت محدود ہوتے ہیں، لہذا اگر خلا میں ملین ڈگری درجہ حرارت ہو تو وہ بھی اربوں ڈگری میں محسوس ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ناسا کے سائنس دانوں نے سولر پروب کپ کو ڈیزائن کرنے کے لیے 8 سال کام کیا۔ پارکر کے سولر پروب کپ کو ٹنگسٹن (ایک کمیاب چمک دار بھورے رنگ کا عنصر)، مولبڈینم (چاندی جیسا سفید دھاتی عنصر)، نیوبیئم (ایک کمیاب خاکستری مائل نیلا دھاتی عبوری عنصر) اور سیفائر( یاقوت) جیسی دھاتیں استعمال کی گئی جن کا نقطئہ پگھلاؤ بہت زیادہ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں