121

اور سیز پاکستانیوں نے ملک میں ڈالر بھیجناکیوں بندیا کم کردئیے ؟ اصل وجہ سامنے آگئی

لاہور(نیوز ڈیسک) اور سیز پاکستانیوں نے ملک میں ڈالر بھیجنا کم کردئیے ہیں جس کی وجہ ملک میں جاری سیاسی ومعاشی عدم استحکام ہے۔عثمان روکھڑی امریکہ میں ملازمت کرتے ہیں، پہلے وہ بینکنگ چینلز کے ذریعے ڈالر پاکستان بھیجتے تھے۔ انہوں نے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ کھلوا رکھا تھا، جس کے ذریعے پراپرٹی میں سرمایہ کاری بھی کی تھی۔تاہم پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے خدشات بڑھنے کی خبروں کے بعد انہوں نے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ بند کر کے پراپرٹی بیچ دی،انہوں نے کہا،ایک تو عالمی مہنگائی کی وجہ سے بچت نہیں ہو رہی اور دوسرا پاکستان کب دیوالیہ ہو جائے کچھ کہا نہیں جا سکتا، ایسی صورت حال میں جو تھوڑی بہت بچت ہے، وہ پاکستان بھیجنے کا رسک نہیں لے سکتے۔انہوں نے کہا وہ اس وقت پاکستان ڈالر بھیجیں گے جب سیاسی استحکام آئے گا۔ عالمی مارکیٹ میں پاکستان کی حالت بہتر ہو گی، پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ مثبت ہو گی اور ڈالر کا ریٹ مارکیٹ کے مطابق ہو گا،یہ نیشنل ازم کا دور نہیں بلکہ گلوبل لائزیشن کا دور ہے جہاں منافع بخش پالیسیاں نظر آئیں گی، آپ پاکستانی ہوں یا امریکی آپ اپنا سرمایہ وہیں منتقل کریں گے۔ قصور وار حکومت ہے بیرون ملک پاکستانی نہیں۔اس حوالے سے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلیمان شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کی تعداد میں کمی کی وجہ سے ترسیلات کم ہوئی ہیں،پاکستان چار ممالک امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے زیادہ ترسیلات حاصل کرتا رہا ہے، جو ٹوٹل ترسیلات کا تقریباً 67 فیصد ہے اور جن میں کمی آئی ہے،جولائی سے اکتوبر 2022 میں ترسیلات زر میں 9.9 ارب ڈالر کی کمی واقع ہوئی جو پچھلے سال اسی دورانیے کی نسبت 8.6 فیصد کم ہیں۔پاکستان چار ممالک امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے زیادہ ترسیلات حاصل کرتا رہا ہے، جو ٹوٹل ترسیلات کا تقریباً 67 فیصد ہے اور جن میں کمی آئی ہے،برطانیہ سے وصول ہونے والی ترسیلات میں 8.3 فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔ اس کی ایک وجہ وہاںتاریخی مہنگائی بھی ہو سکتی ہے۔2019 میں دو لاکھ 11 ہزار 70 پاکستانی متحدہ عرب امارات گئے تھے جبکہ 2020 اور 2021 میں یہ تعداد صرف 81 ہزر 118 ہے،اس کمی کی وجہ کرونا وبا بھی ہو سکتی ہے لیکن اطلاعات ہیں کہ متحدہ عرب امارت پاکستانیوں کی نسبت انڈین ورکرز کو ترجیح دے رہا ہے۔اسی طرح جولائی سے اکتوبر کے درمیان سعودی عرب سے وصول ہونے والی ترسیلات 2.785 ارب ڈالر سے کم ہو کر 2.459 ارب ڈالر رہ گئی ہیں،2019 میں تین لاکھ 32 ہزار 764 پاکستانی سعودی عرب گئے جبکہ 21-2020 میں تعداد صرف دو لاکھ 92 ہزار153 ہے۔متحدہ عرب امارات سے ترسلات زر میں 9.2 فیصد کمی آئی ہے، جس کی وجہ مطلوبہ ماہر ورکرز کا نہ ہونا ہے۔سعودی عرب میں ترقیاتی کام تیزی سے جاری ہیں اور پوری دنیا سے لوگ روزگار کی تلاش میں وہاں جا رہے ہیں لیکن پاکستانیوں کی تعداد میں کمی کی وجہ مطلوبہ ماہر لیبر کا نہ ہونا ہے۔قطر نے پاکستان کو فیفا ورلڈ کپ کے لیے دو لاکھ پاکستانیوں کو قطر میں ملازمتیں دینے کا کوٹہ فراہم کیا تھا جبکہ پاکستان صرف تقریباً 50 ہزار لوگوں کو قطر بھیج سکا،اس حوالے سے ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ نے بتایا کہ بیرون ملک پاکستانی بینکنگ چینلز اور دیگر قانونی ذرائع کے ذریعے ڈالر بھیجنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں کیونکہ ریٹ کا بہت زیادہ فرق ہے۔ہنڈی حوالے میں ڈالر کا ریٹ 245 روپے ہے جبکہ انٹربینک میں ڈالر 223 روپے کا مل رہا ہے،اس کے علاوہ منی ٹرانسفر کمپنیاں 216 روپے میں ڈالر خرید رہی ہیں اور تقریباً 10 سے 20 ڈالر فی ٹرانزیکشن چارجز لے رہی ہیں،اس حساب سے ہنڈی کے ذریعے ڈالر بھیجنے پر تقریباً 35 روپے زیادہ منافع مل رہا ہے۔اس لیے آج کل ہنڈی کا کاروبار عروج پر ہے اور بیرون ملک پاکستانی بینکنگ چینلز کی بجائے ہنڈی کے ذریعے پیسہ بھیجنے کو ترجیح دے رہے ہیں،اگر حکومت روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں آنے والے ڈالر کا ریٹ مارکیٹ سے تین روپے بڑھا دے تو اس سے بیرون ملک پاکستانی منی ٹرانسفر کمپنیوں کے ہاتھوں بلیک میل نہیں ہوں گے اور ترسیلات میں اضافہ ہو سکے گا،افغانستان اور ایران سرحد کے ذریعے ڈالر سمگلنگ روکنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں