347

ملکہ برطانیہ کی پلاٹینم جوبلی

پچھلے ہفتے ملکہ الزبتھ ثانی کی تاج پوشی کی ستر سالہ یعنی پلاٹینم جوبلی کا جشن منا یا گیا۔ وہ برطانیہ میں سب سے طویل عرصے تک تخت نشین رہنے والی ملکہ ہے۔ اس سے پہلے ملکہ وکٹوریہ تخت شاہی پر تریسٹھ سال رہی تھیں۔ شہزادی الزبتھ کینیا کی سیاحت پر تھی کہ ان کے والد جارج ششم کا انتقال ہوا اور شہزادی واپس پہونچی تو ملکہ بن گئی تھیں۔ سولہ مہینے بعد 2 جون 1953 کو انکی باقاعدہ تاج پوشی کی گئی۔ اس وقت ان کی عمر ستائش برس تھی۔ تاج پوشی کی پلاٹینم جوبلی کی خوشی میں ملک بھر میں 2 جون سے چار دن عام تعطیل رہی۔ ملکہ کی رہائش گاہ بکنگھم پیلس کے سامنے ہزاروں لوگ جمع ہو جاتے اور رنگارنگ تقریبات کا حصہ بنتے ۔ پہلے دن توپوں کی سلامی سے دن کا آغاز ہوا۔ ملکہ بگھی میں بیٹھی کئ راستوں سے گزری اور لوگوں نے یونین جیک کے پرچم لہرا کر ان کا استقبال کیا۔ دوسرے دن سینٹ پال کیتھیڈرل میں ‘تھینک گیونگ’ شکر ادا کرنے کے موقعے پر شہزادہ چارلس نے والدہ کی جگہ شرکت کی۔ رات کو بکنگھم پیلس کے سامنے میوزیکل کنسرٹ ہوا۔ ملکہ پہلے دن کافی تھگ گئی تھیں۔ وہ ضعیف العمربھی ہیں اس لئے وہ ہر ایک تقریب میں شریک نہ ہوسکیں۔ انہوں نے چوتھے دن محل کے بالکونی میں اکر عوام کا شکریہ ہاتھ ہلا کر کیا۔ ہم شمالی ائرلینڈ کے شہر بلفاسٹ میں تھے۔ وہاں شاہی قیام گاہ ‘ہل برو کاسل’ میں توپوں کی سلامی دی گئ۔ ہم گئے تو شاہی محل عوام کے لئے کھولا گیا تھا اس کے لئے ٹکٹ مقرر تھا جو اس لئے بھی ضروری تھا کہ گنجائش سے زیادہ لوگ جمع نہ ہوں۔ یہ محل اتنا چھوٹا بھی نہیں لیکن پھر بھی۔ سو مربع ایکڑ پر پھیلا ہوا یہ محل 1650 میں بنا تھا۔ اس کے بڑے لان میں کرسیاں رکھی گئیں تھی۔ ایک فاصلے پر توپیں رکھدی گئیں تھی۔ لان کے ایک طرف اسٹیج سجا ہوا تھا جس پر رقص و موسیقی کا انتظام تھا۔ مختلف قسم کے سٹال لگاے گئے تھے جس میں خوردونوش کا بھی بندوبست تھا۔ ایک سٹال کتابوں کا بھی تھا. پینٹنکز اور تصاویر کے لئے بھی دو تین سٹال تھے۔ پودے اور درخت بھی برائے فروخت موجود تھے۔وقت مقررہ پر توپوں کی سلامی دی گئ اور لوگ سٹالوں کو دیکھنے اور محل کے نظاروں سے لطف اندوز ہونے لگے۔ ہر طرف خوبصورت پھول کھلے تھے۔ کچھ لوگ بیٹھے موسیقی سننے لگے۔ بچے جھولے جھول رہے تھے۔ یہاں بچے کم ہوتے ہیں اس لئے جھولوں پر رش تھا نہ ٹکٹ۔ ایک دو لوگ اپنے کتے بھی ساتھ لائے تھے۔ یہاں کتے کسی کو دیکھ کر کاٹنے کو نہیں دوڑتے اس لئے ان کو دیکھ کر ڈر نہیں لگتا۔ محل سے فاصلے پر کار پارک میں آئس کریم بیچنے والوں نے اپنے کھوکھے کے ساتھ تین پانی کے برتن رکھے تھے۔ وہاں لکھا تھا ‘کتوں کو پانی پلانے کے لئے’۔ہم محل سے نکلنے لگے تو وہ پودہ نظر آیا جو ملکہ نے 1983 میں بلفاسٹ کے دورے کے موقع پر لگایا تھا۔ ملکہ نے ستر سالوںمیں دنیا بھر میں بے شمار درخت لگائے۔ جوبلی تقریبات کےسلسلے میں بھی ‘د کوئین کینوپی’ کے نام سے ایک لاکھ درخت لگانے کا منصوبہ تھا۔ لوگوں نے رضاکارانہ طور پر ‘صحیح جگہ، صحیح درخت۔ صحیح مقصد ‘ کے نعرے کے تحت اس کار خیر میں حصہ لیا۔جوبلی تقریبات کے موقعہ پر مشہور ڈربی ہارس ریس ‘گھوڑ دوڑ’ بھی منعقد ہوئ۔ ملکہ گھوڑے پالنے اور گھوڑدوڑ دیکھنے کا شوق رکھتی ہیں لیکن ضعیف العمری کی وجہ سے اسے دیکھنے نہیں جاسکیں۔تقریبات میں ایک موقع ایسا بھی آیا کہ پانچ افراد شاہی جلوس کے سامنے آئے ۔ ایک نے پلے کارڈ اٹھایا تھا جس پر درج تھا ‘ ری کلیم رائل لینڈ ‘ یعنی شاہی زمین واپس کرو۔ ان کو وہاں سے ہٹایا گیا۔ یہ ‘انیمل ریبلئن ‘ یعنی جانوروں کی بغاوت کے نام سے تین سال قبل قائم ہونے والی ایک تنظیم ہے جس کا مطالبہ ہے کہ صرف فصلیں اور سبزیاں اگائ جاے، جانوروں کے گوشت اور دودھ سے پرہیز کیا جائے اور زیر کاشت زمین کا 76 فی صد رقبہ جانوروں کے مسکن کے لئے چھوڑ دیا جائے۔ اج کل موسمیاتی تعیر کے خطرے کے پیش نظربھی اس طرح کے مطالبات کئ لوگوں کے لئے کشش کے باعث بنتے ہیں۔ جانوروں کی شکار نہ کریں اور ان کے چمڑے اور فر سے تیار کی گئی اشیاء استعمال نہ کی جائے جیسے مطالبات پہلے سے ہو رہے ہیں۔ لندن کے مشہور زمانہ دکان ہیرڈ کے سامنے اس طرح کے لوگ احتجاج کرتے رہتے ہیں لیکن کسی کا راستہ روکتے ہیں نہ کسی کو پریشان کرتے ہیں۔ملکہ کی تاج پوشی ملک کے طول وعرض میں منائی گئی۔ بازاروں میں اور گھروں کے اوپر قومی پرچم لہراے گئے اور سٹریٹ پارٹیاں منعقد کی گئیں۔ ہم نے جن سے بات کی تو ملکہ کی تعریف سنی۔ شہنشاہیت کے خلاف بھی لوگ ہونگے لیکن ملکہ کے خلاف بہت ہی کم لوگ ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ صدیوں سے قائم بادشاہت سے عوام اکتا کیوں نہیں جاتے؟ اس کا جواب آسان ہے۔ پہلے تو یہ کہ یہاں کے عوام اپنی تاریخ کو بے پناہ اہمیت دیتے ہیں اور ملکہ کو اس تاریخ کا اہم کردار سمجھتے ہیں۔ اس لئے وہ انکے لئے اہم ہیں۔ ستر سال میں بہت تبدیلیاں ائیں ۔ برطانیہ ایک امپائر سے دولت مشترکہ بنی۔ سیاسی کشاکش کے ادوار گزرے۔ ایک وقت آیا کہ لیڈی ڈیانہ جیسی مقبول اور پرکشش خاتون نے شاہی محل اور اس کے باسیوں کی شکایت کی۔ ایسا وقت بھی آیا کہ شہزادہ چارلس کے بیٹے ہیری کی بیوی میگن نے شاہی خاندان پہ خوب کیچڑ اچالا۔ ملکہ نے کہا یہ ہمارا خاندانی معاملہ ہے اور خود اسے حل کریں گے۔ یہاں عوام کی نظر میں ملکہ نے ہر حالت میں استقامت، وقار اور اعتماد کا ثبوت دیا۔ سیاست اور حکومت میں اپنے کردار کو قانون، روایات اور اقدار کی پاسداری کرتے ہوے بدلتے حالات اور وقت کے تقاضوں کے مطابق نبھا کر اپنے وقار کو قائم رکھا۔ اس دور میں چودہ وزرائے اعظم گزرے اور ملکہ نے سیاست سے بالاتر ہوکر ملک کے مفاد کے لئے کام کیا۔ اس لئے لاکھوں کروڑوں عوام نے ان کی پلاٹینم جوبلی میں حصہ لیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں