150

پی ٹی آئی حکومت کے تین سالوں میں پیش آنے والے اہم تنازعات

لاہور: پی ٹی آئی کی حکومت کے گزشتہ تین سالوں کے دوران وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اسی حوالے سے خبروں میں رہے کہ ان کو تبدیل کیا جا رہا ہے، تاہم وزیراعظم عمران خان ہر بار پنجاب آ کر ان کو ڈٹ کر کام کرنے کی تلقین کرتے نظر آئے۔

وزیراعلیٰ پنجاب کی تبدیلی کی افواہیں
اس دوران وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے خلاف شراب لائسنس اسکینڈل بھی منظر عام پر آیا، جس پر تاحال نیب میں کارروائی جاری ہے۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے جنوبی پنجاب کی عوام کو اہمیت دیتے ان کیلئے جنوبی پنجاب سیکرٹیریٹ کے قیام کا اعلان تو کیا، تاہم بعد میں اس سے واپسی اختیار کر لی۔ ستمبر 2020 میں پنجاب حکومت نے ایک نوٹیفکیشن کے تحت جنوبی پنجاب کی فعالیت کا اعلان کیا گیا اور رولز آف بزنس میں ترامیم بھی کی گئیں، تاہم ایک سال سے بھی کم عرصے بعد مارچ 2021 کو ایک نیا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جس کے تحت پنجاب کے رولز آف بزنس میں جنوبی پنجاب کیلئے ترامیم کے پرانے نوٹیفکیشن کو واپس لے لیا گیا۔

بدعنوانی کے خلاف مہم اور احتساب

تحریک انصاف حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد کرپشن اور ناقص کارکردگی دکھانے والے افسران کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا جس کے نتیجے میں بہت سے اہم افسران کے تقرر و تبادلے کئے گئے، تاکہ محکموں کی کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکے البتہ ان تقرر و تبادلوں کے نتائج حوصلہ افزاء نہیں نکلے ،جس کے نتیجے میں حکومت کے گزشتہ تین سالوں میں سماجی انصاف اور کڑے احتساب کا نعرہ صرف باتوں تک ہی محدود دکھائی دیا۔ اس دوران اپوزیشن رہنماؤں کو احتساب کے نام پر گرفتار تو کیا گیا تاہم حکومتی بینچوں میں موجود ارکان کو احتساب سے دور رکھا گیا۔

پیٹرولیم بحران

گزشتہ سال تیل کی عالمی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے ملکی سطح پر بھی پیٹرول کی قیمت میں کمی کی گئی۔مارچ 2020 میں 111 روپے فی لیٹر میں فروخت ہونے والے پیٹرول کی قیمت تقریباً 75 روپے فی لیٹر ہوگئی جب حکومت نے دو مہینوں میں اس کی قیمت میں نمایاں کمی کی۔اس کمی کی وجہ تیل کی عالمی قیمتوں میں کمی کو قرار دیا گیا۔ تاہم پیٹرول سستا ہونے کے بعد اس کی دستیابی مشکل ہوگئی۔ پیٹرولیم بحران کے پیشِ نظر حکومت نے گزشتہ سال26جون کو شدید دباؤ میں آکر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں راتوں رات 25 روپے 58 پیسے تک کا اضافہ کیاتو فوری طور پر ملک بھر میں پیٹرول کی دستیابی بھی بحال ہوگئی۔

ادویات کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ

گزشتہ سال ستمبر میں وفاقی کابینہ کی جانب سے زندگی بچانے والی 94 ادویات کی قیمتوں میں 510 فیصد تک اضافہ کیا گیا۔ ایک مہینے بعد اکتوبر میں حکومت نے ایک مرتبہ پھر ادویات کی قیمتوں میں 22 سے 35 فیصد اضافہ کر کے مجموعی طور پر 253 ادویات کی قیمتیں بڑھائیں۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کے مطابق ادویات کی قیمتیں اتنی بڑھائی گئی ہیں کہ لوگوں تک پہنچ سکیں۔

پاکستان اسٹیل ملز ملازمین کی برطرفی

گزشتہ سال نومبر میں پاکستان اسٹیل ملز سے 4544ملازمین کو برطرف کیا گیا۔حکومت کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ سٹیل ملز کے برطرف ملازمین کو بقایاجات ادا کیے جائینگے۔ 4544 برطرف ملازمین کو 10 ارب کے واجبات ادا کیے جانے کا بھی اعلان کیا گیا، جس کے تحت پاکستان اسٹیل ملز کے بر طرف کیے گئے ملازمین کو فی کس 23 لاکھ روپے ادا کیے جائیں گے۔

پی آئی اے طیارہ حادثہ اور جعلی پائلٹس اسکینڈل

گزشتہ سال 22 مئی میں کراچی آنے والی قومی ائیر لائن کی پرواز پی کے 8303 جناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ کے قریب آبادی پر گر کر تباہ ہوگئی جس سے 97 افراد جاں بحق ہوئے۔ حادثے کے باعث 21 گھر بھی تباہ ہوئے جبکہ 45 ملین سے زیادہ کا نقصان ہوا ۔حادثے کے بعد حکومت کی جانب سے ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ جاری کی گئی جس میں پی آئی اے طیارہ حادثہ ”انسانی غلطی“ قرار دیا گیا۔طیارہ حادثہ رپورٹ میں تہلکہ اس وقت آیا جب وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے اس بات کا انکشاف کیا کہ پاکستان میں 860 پائلٹس میں سے 262 پائلٹس (تقریباً 30 فیصد) کی ڈگریاں جعلی ہیں۔ جعلی پائلٹس کا معاملہ منظر عام پر آنے کے بعد یورپی یونین ایئر سیفٹی ایجنسی (ایازا) کی جانب سے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کے یورپین ممالک کیلئے فضائی آپریشن کے اجازت نامے کو چھ ماہ کیلئے معطل کر دیا گیا۔ یورپ کے بعد امریکہ کے محکمہ ٹرانسپورٹ نے پاکستان کی قومی فضائی کمپنی ،پی آئی اے، کو امریکہ تک خصوصی پرواز چلانے کے حوالے سے دیا جانے والا خصوصی اجازت نامہ بھی منسوخ کر دیا۔ اس فیصلے کے نتیجے میں جہاں پی آئی اے کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گیا وہیں ان سینکڑوں پائلٹس کے روزگار بھی داؤ پر لگتے نظر آئے جنھوں نے پاکستان سے لائسنس حاصل کر رکھے تھے اور پی آئی اے کے علاوہ دوسری ملکی اور بین الاقوامی ایئر لائنز کیلئے کام کرتے ہیں۔

آٹا اور چینی بحران

پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود اجناس کی قلت کے مسائل سے دو چار ہے۔ گزشتہ سالوں میں جن اجناس کی قلت بحران کی شکل اختیار کر گئی ان میں چینی، گندم اور آٹا سرفہرست رہے۔ عوام اور میڈیا کے شور مچانے پر ان بحرانوں کی وجوہات جاننے اور ذمہ داران سے نمٹنے کیلئے تحقیقات کرائی گئیں، جس کے بعد تحقیقاتی رپورٹ کو پبلک کر دیا گیا، تاہم بحرانوں کی وجہ سے قیمتوں میں ہونے والے اضافے کو تاحال قابو نہیں کیا جاسکا، نہ ہی ذمہ داران کی پکڑ ممکن ہوسکی۔کچھ ایسا ہی گزشتہ سال ہوا جب سال 2020 کا آغاز گندم بحران کے ساتھ ہوا، جس کے بعد چینی کی قیمتوں کو بھی پر لگ گئے۔

سول سروسز کی اصلاح

تحریک انصاف نے اپنی حکومت کے قیام کے بعد سول سروسز کی اصلاحات کرنے کیلئے اقدامات کرنے کا اعلان کیا۔ اس سلسلے میں حکومت نے 19 رکنی ٹاسک فورس بھی بنائی بنائی،جس میں وفاقی اور صوبائی بیوروکریسی کے نمائندے قانون کے شعبہ سے بھی اہم شخصیتیں بھی شامل تھیں۔سول سروسز اصلاحات کیلئے وزیراعظم عمران خان نے وزیراعظم آفس میں ادارہ جاتی اصلاحات سیل (آئی آر سی) قائم کیا اور ڈاکٹر عشرت حسین کو مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات مقرر کیا۔ ٹاسک فورس نے سول سروس اصلاحات سے متعلق بلیو پرنٹ حکومت کے حوالے کر تو دیالیکن حکومت کے تین سال گزر جانے کے باوجود موجودہ سول سروسز اصلاحات کو ابھی تک کاغذ سے باہر نکال کر عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا۔ حکومت کی جانب سے ادارہ جاتی اصلاحات میں تاخیر ہونے پر اسے تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا، جس کے پیشِ نظر گزشتہ ماہ 29 جولائی کو ڈاکٹر عشرت حسین نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ اسی طرح ماضی میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سربراہ ماہر ٹیکس امور شبر زیدی اور سرمایہ کاری بورڈ کیلئے نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے ہارون شریف بھی مختصر مدت کیلئے اپنے عہدوں پر فائز رہنے کے بعد اپنے عہدوں سے مستعفی ہو چکے ہیں۔

جہانگیر ترین پارٹی اختلافات

جہانگیر ترین کو تحریک انصاف میں عمران خان کے بعد سب سے زیادہ طاقتوار اور با اختیار شخصیت سمجھا جاتا تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت مرکز میں قائم ہونے کے بعد وزیراعظم عمران خان کی جانب سے زراعت، لائیو سٹاک اور خوارک کے تمام سیکٹرز جہانگیر ترین کے سپرد کر دیے گئے تھے۔ 2019 کی شوگر اسکینڈل رپورٹ میں جہانگیر ترین کا نام سامنے آنے پر، وزیراعظم عمران خان اور جہانگیر ترین کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے۔ ان اختلافات میں شدت اس وقت آئی جب ایف آئی اے میں جہانگیر ترین اور ان کے اہلخانہ کے خلاف مقدمات درج ہوئے۔وقت گزرتے ساتھ ، 11 اراکین قومی اسمبلی اور 22 اراکین پنجاب اسمبلی نے جہانگیر ترین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اپنا الگ گروپ تشکیل دیا جسے بعد میں ترین گروپ کا نام دیا گیا۔

کراچی کی اصلاح

گزشتہ سال کراچی میں ہونے والی بارشوں سے تباہی کے بعد وزیراعظم عمران خان نے ستمبر 2020 میں کراچی کا دورہ کیا اور 1100 ارب روپے کے پیکیج ”کراچی ٹرانسفارمیشن پلان“ کا اعلان کیا۔ جس کیلئے وفاقی حکومت نے پی ایس ڈی پی کی مد میں سے 98 ارب روپے جبکہ سرکاری و نجی شعبے کے اشتراک سے 509 ارب روپے جبکہ سپریم کورٹ فنڈز میں سے 125 ارب روپے شامل کیے گئے تھے ، اس پلان کے تحت نالوں ، دریاؤں ، سڑکوں کی تعمیر ماسٹرانزٹ پراجیکٹس اور واٹر سپلائی کی سہولت فراہم کرنے کا پلان بنایا گیا۔اس پیکیج میں کراچی کے ٹرانسپورٹ، سالڈ ویسٹ، پانی اور سیوریج کے مسائل کا حل سمیت سرکلر ریلوے کی بحالی کے منصوبے شامل تھے۔ ان سب کاموں کی مانیٹرنگ کیلئے “صوبائی کوآرڈینیشن عمل درآمد کمیٹی” (پی سی آئی سی) کے قیام کا بھی اعلان کیا گیا، جس میں وفاق، صوبائی حکومت اور فوج شریک ہوں گے۔ وزیراعظم عمران خان کے اس اعلان کردہ پیکیج کو ایک سال گزر جانے کے بعد بھی کراچی کے حالات میں کوئی خاصی تبدیلی نظر نہیں آئی۔ کراچی انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کمیٹی کی جانب سے گرین لائن منصوبے کو جون 2019 میں مکمل کرنے کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی جس کو گزرے دو سال سے زائد ہو گئے ہیں۔ فی الوقت، کراچی کی عوام ٹرانسپورٹ اور سیوریج کے مسائل کا شکار ہے۔

50 لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے حکومت میں آنے سے قبل ملک میں 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کا وعدہ کیا گیا۔ اس حوالے سے وفاقی حکومت نے 2019 میں “نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی ” کا قیام کیا۔ حکومت نے اس اتھارٹی کے قیام کے ایک سال کے اندر ایک لاکھ 35 ہزار یونٹس کی تعمیر کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔ تاہم ابھی تک صرف 1500 ہاؤسنگ یونٹس زیر تعمیر ہیں۔ اپنے دیگر وعدوں کی طرح تحریک انصاف حکومت نے ملک میں ایک کروڑ نوکریاں دینے کا بھی وعدہ کیا تاہم بعد میں اس وعدے سے یہ کہتے ہوئے آنکھیں پھیر لیں کہ ملازمت کے مواقع فراہم کرنے سے متعلق حکومت کی امیدین نجی شعبے سے وابستہ ہیں۔ ایک موقع پر فواد چوہدری نے کہا کہ عوام حکومت سے نوکریاں نہ مانگے، روزگار دینا حکومت کا نہیں نجی شعبے کا کام ہے۔گزشتہ سال انہوں نے یہ کہہ کر بھی سب کو حیران کر دیا کہ حکومت مالی مسائل کے باعث 400 محکموں کو بند کرنے پر غور کر رہی ہے۔ کچھ ایسا ہی سابق مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کا بھی کہنا تھا جن کے مطابق حکومت محض پالیسی ساز ہے اور وہ لاکھوں نوکریاں نہیں دے سکتی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں