201

احمد فراز کی 10 ویں برسی، شاعری کا سحر آج بھی برقرار

خوابوں کو لفظوں کا روپ دینے والے شاعر کی 10ویں برسی منائی جا رہی ہے، چھ دہائیوں پر مبنی ادبی زندگی پر احمد فراز کو کئی اعزازات سے نوازا گیا۔ احمد فراز نے اپنے لفظوں سے شاعری کو نئی جہتوں سے روشناس کرایا۔ اپنی حساس اور انقلابی شاعری سے احمد فراز نے دنیا بھر میں ہزاروں مداحوں کے دلوں پر راج کیا۔

اردو کے نامور شاعر سید احمد شاہ، جنہیں ہم احمد فراز کے نام سے جانتے ہیں، 14 جنوری 1931ء کو کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ شاعری انہیں ورثے میں ملی، والد سید محمد شاہ کا شمار ممتاز شعرا میں ہوتا تھا۔ انہوں نے تعلیم اسلامیہ ہائی سکول کوہاٹ، 1900ء میں قائم ہونے والے معروف ایڈورڈز کالج اور پشاور یونیورسٹی سے حاصل کی۔ انہوں نے تین زبانوں اردو، فارسی اور انگریزی میں ایم اے کیا۔ دوران تعلیم ترقی پسند افکار اور تحریک سے متاثر ہوئے اور پھر ترقی پسندی کا دامن کبھی نہ چھوڑا۔ شاعری کی جانب رغبت شروع سے تھی۔ 1960ء کی دہائی میں وہ زیرتعلیم ہی تھے جب ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ ’’تنہا تنہا‘‘ شائع ہوا۔ اس کے بعد شہرت کی سیڑھی پر رکھا گیا قدم بڑھتا ہی گیا۔ اپنی شاعری میں رومانوی کے ساتھ ساتھ انقلابی رنگ کی وجہ سے وہ نوجوانوں کے ساتھ ساتھ سیاسی کارکنوں میں بھی بہت مقبول ہو گئے۔ احمد فراز نے اپنے کیرئیر کا آغاز ریڈیو پاکستان سے بطور سکرپٹ رائٹر کیا اور اس کے بعد پشاور یونیورسٹی میں پڑھانے لگے۔ ایک انٹرویو کے دوران ان سے پوچھا گیا کہ پہلی چیز انہوں نے کیا لکھی، تو وہ انہیں یاد تھی۔ کہتے ہیں ’’میں نویں سے دسویں میں تھا اور میرے بڑے بھائی محمود دسویں سے کالج میں داخل ہوئے تھے تو والد صاحب ہمارے لیے کچھ کپڑے لائے تھے۔ اس کے لیے تو سوٹ لائے اور میرے لیے کشمیرے کا پیس کوٹ کے لیے لے آئے، تو وہ مجھے بالکل کمبل سا لگا۔ چیک تھا، آج کل تو بہت فیشن ہے لیکن اس وقت وہ مجھے کمبل سا لگا اور میں نے ایک شعر لکھا جو یہ تھا: سب کے واسطے لائے ہیں کپڑے سیل سے لائے ہیں میرے لیے قیدی کا کمبل جیل سے‘‘ ان کے اولین اور بظاہر ہلکے پھلکے شعر میں امتیاز کی جانب اشارہ موجود ہے۔ وہ اسے ناپسند کرتے تھے۔ ان کی شاعری میں امتیاز، تفریق اور جبر کے خلاف بار بار صدائیں بلند ہوتی نظر آتی ہیں۔ تاہم ان کی شاعری میں رومانوی رنگ غالب ہے۔

فراز کی مزاحمتی اور انقلابی شاعری تاثر، نغمگی اورہنر میں رومانوی کے ہم پلہ ہے۔ حکومت کی جانب سے 1970ء کی دہائی کے وسط میں جب ادب کا اعلیٰ ترین ادارہ اکیڈمی آف لیٹرز قائم کیا گیا تو احمد فراز اس کے پہلے ڈائریکٹر جنرل مقرر ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹنے والی سرکار کو ان کی شاعری ناگوار گزری تو انہیں گرفتار کر لیا۔ حساس طبیعت شاعر نے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر لی۔ احمد فراز جنرل ضیاالحق کے دور حکومت میں کچھ عرصہ مختلف مغربی ممالک میں قیام پذیر رہے۔ اس دوران انہوں نے اپنی مشہور نظم ’’محاصرہ‘‘ لکھی۔ ملک میں سول حکومت قائم ہونے کے بعدآپ ایک اہم عہدے پر متمکن ہوئے۔ بہت سے نامور گلوکاروں نے ان کی شاعری کو چار چاند لگائے۔ مہدی حسن نے اپنی آواز کے جادو سے ’’رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ‘‘ گائی جسے آج تک پورے ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔ ان کی غزل ’’سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے‘‘ میڈم نور جہاں کے توسط سے کم و بیش ہر اس مقام تک پہنچی جہاں اردو سمجھی جاتی ہے۔ لتا منگیشکر اور آنجہانی جگجیت سنگھ نے ان کی شاعری کو اپنی آواز سے سینچا اور خوب پذیرائی حاصل کی۔

احمد فراز کی شاعری نے فلموں میں بھی جگہ پائی۔ انہیں مختلف اعزازات سے نوازا گیا جن میں چھ غیرملکی ایوارڈز ہیں۔ انہیں ملنے والے اعزازات میں آدم جی ایوارڈ، اباسین ایوارڈ، فراق گورکھپوری ایوارڈ (انڈیا)، اکیڈمی آف اردو لٹریچر ایوارڈ (کینیڈا)، ٹاٹا ایوارڈ جمشید نگر (انڈیا)، اکادمی ادبیات پاکستان کا کمال فن ایوارڈ، اور ادب میں نمایاں کارکردگی پر ہلال امتیاز شامل ہیں۔ ان کے شعری مجموعوں میں تنہا تنہا، جاناں جاناں، خواب گل پریشاں ہے، غزل بہانہ کروں ، درد آشوب، نایافت، نابینا شہر میں آئینہ، بے آواز گلی کوچوں میں، پس انداز موسم، شب خون، بودلک، یہ سب میری آوازیں ہیں، میرے خواب ریزہ ریزہ، اے عشق جفا پیشہ شامل ہیں۔ ان کا تقابل اردو کے عظیم شعرا کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ ان کی شاعری کے تراجم مختلف غیر ملکی زبانوں میں ہوئے۔ ان کا انتقال 25 اگست 2008ء کو ہوا لیکن لطیف انسانی جذبوں کے پُراثر اظہار کی بدولت ان کی شاعری آج بھی تروتازہ محسوس ہوتی ہے۔ ان کے اشعار نہ صرف عام لوگ دہراتے دکھائی دیتے ہیں بلکہ کمال یہ ہے کہ مقتدر طبقے سے تعلق رکھنے والے بھی اپنے بیانات، تقاریراور ٹویٹس میں ان کا حوالہ دیتے نظر آتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں