148

عالمی دن: مردشماری میں ڈاؤن سنڈروم کو الگ شمار کرنے کا مطالبہ

کراچی : پاکستان ڈاون سنڈروم ایسوسی ایشن ، دیوا اکیڈمی، اے پی ایچ اے کراچی کے عابد لاشاری، نشاط احمد، رضوان احمد لودھی، روبن مسیح نے کراچی پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں21مارچ ڈاون سنڈروم معذوری کا عالمی دن منایا جاتا ہے، جس کا مقصد ڈاون سنڈروم کے متعلق آگاہی کو عام کرنا، افراد باہم ڈاون سنڈروم کو سمجھنا، معاشرتی دہارہ میں شامل کرنا، تعلیم، صحت و روزگار کے لیئے موثر اقدام اٹھانے کے لیئے کوشش کرنا شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں2لاکھ سے زائد آبادی ڈاون سنڈروم میں مبتلا ہے جو عدم توجھ، معاشرتی و حکومتی بے راہ روی کا شکار ہے دراصل ڈاون سنڈروم جسمانی بناوٹ میں خلیوں کروموسوم کی جوڑوں میں عمومی تبدیلی آنا، بارہواں جوڑا تین ہو جانے سے جسمانی بناوٹ میں عمومی تبدیلی آ جاتی ہے جس کی وجہ سے بچے کی پرورش میں نمایاں عمومی تبدیلیاں نمودار ہوتی ہیں۔ جس میں سیکھنے اور سمجھنے کا عمل سست ہو جانا، قد کا نا بڑھنا، کانوں کا مڑ جانا، سننا مگر بول نہ سکنا، نظر کی کمزوری، دل کا سوراخ وغیرہ شامل ہیں۔ ایسے بچے خصوصی توجہ کے حامل ہوتے ہیں، مناسب تربیت سے یہ بچے عام زندگی گزار سکتے ہیں، دنیا میں کئی مثالیں موجود ہیں جس میں افراد باہم ڈاون سنڈروم عام کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔


عابد لاشاری نے کہا کہ پاکستان سمیت دنیا میں ذھنی معذوری کی بحالی کا بڑا فقدان ہے۔ ماسوا بڑے شہروں کے بحالی مراکز ہیں ہی نہیں سندہ میں کراچی کے بعد نواب شاہ میں این ڈی ایف نواب شاہ و پاکستان ڈاون سنڈروم ایسوسی ایشن کراچی نے محکمہ بحالی معذورین سندھ حکومت کے تعاون سے ذھنی معذور بچوں کا بحالی مرکز قائم کیا گیا ہے، جس روزانہ بنیاد پر ڈاون سنڈروم، آٹیزم، ای ڈی ایچھ ڈی بچے باھم عدم توجہ، و دیگر ذھنی معذوری کی بحالی کے لیئے سو بچوں کو مشقیں تھراپیز فزیوتھراپی، سائکوتھراپی، اسپیچ تھراپی اور آکوپیشنل تھراپی مسلسل فراہم کی جاتی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ بنیادی تعلیم، کھیل، تفریح، رھائش، متوازن غذا و بنیادی ضروریات کی فراہم کی جاتی ہیں، جس سے بچے ممکن بحالی کی طرف گامزن ہیں۔ ریاستی سطح پر ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے اداروں کی حوصلہ افزائی کی جائے اور ملکی سطح پر دائرہ کار بڑھایا جائے ڈاون سنڈروم لوگوں کی اوسط عمر63برس تک ہوتی ہے، جبکہ ذھنی اوسط 05 ہوتی ہے

انہوں نے مطالبہ کیا کہ پاکستان میں ڈاون سنڈروم کا ڈیٹا بھی موجود نھیں ہے تاہم دو لاکھ سے زائد بچے پاکستان میں موجود ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ممکنہ مردم شماری 2022 میں دوسری معذوری اقسام کے ساتھ ڈاﺅن سنڈروم بچوں کو بھی شمار کیا جائے تاکہ ان کے لیئے بھی خاص منصوبہ بندی کی جائے اور قومی ترقیاتی دھارے مےں شامل کیا جائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں