172

یہ بدقسمت ٹائی ٹینِک سے بھی زیادہ گہرائی میں ڈوبا۔۔۔۔78 برس قبل سمندر میں ڈوبنے والے بحری جہاز کی دریافت کی حیران کردینے والی کہانی

سنہ 1944 میں دوسری عالمی جنگ کے دوران امریکی بحری جنگی جہاز ’یو ایس ایس جانسٹن‘ دنیا میں اب تک لڑی جانے

والی سب بڑی بحری جنگ میں ڈوب گیا تھا۔ 75 برس سے زیادہ عرصے کے بعد اس جہاز کا بچا کھچا ڈھانچہ سطح سمندر سے بھی چھ کلومیٹر گہرائی میں دریافت کر لیا گیا ہے۔ 23 اکتوبر 1944 کو بحیرہ فلپائن کے ساتھ خلیجِ لیٹی میں جدید انسانی تاریخ کی سب سے بڑی بحری جنگ کا آغاز ہوا تھا۔ اگلے تین دنوں میں 300 سے زیادہ امریکی بحری جنگی جہازوں کا تقریباً 70 جاپانی جہازوں سے مقابلہ ہوا۔ سائنسدانوں نے اس بات کا تعین کیا ہے کہ آکسیجن اور زندگی کے وجود سے بھی پہلے وجود میں آنے والی پلبارا کی لوہے سے بھرپور چٹانیں دنیا کی قدیم ترین بالائی تہہ یعنی کرسٹ کی بہترین مثال ہے۔ امریکیوں کے پاس 34 طیارہ بردار بحری جہاز بھی تھے، جو آج دنیا بھر کے تمام کیریئرز سے تعداد سے کچھ کم ہیں۔ ان 34 بحری جہازوں پر تقریباً 1,500 طیارے موجود تھے۔ امریکی فضائیہ کی تعداد جاپانیوں کے مقابلے میں تناسب کے لحاظ سے پانچ کے مقابلے میں ایک تھی۔ جاپانی بحری طاقت کا خاتمہ اس جنگ کے دو بڑے نتائج برآمد ہوئے تھے۔ ایک طرف جاپان فلپائن پر امریکی حملے کو روکنے کے قابل نہ رہا (جس پر تقریباً چار سال پہلے جاپانیوں نے قبضہ کر لیا تھا) اور دوسری طرف جاپانی بحریہ کو اس نوعیت کی شکست ہوئی کہ بقیہ جنگ کے دوران جاپانی بحریہ عملاً ناکارہ ہو کر رہ گئی تھی۔ اس جنگ میں تقریباً 30 جاپانی بحری جہاز ڈوب گئے تھے۔ بہت سے بحری جہازوں، بشمول جاپان کے سب سے بڑے جنگی جہاز ’یاماتو‘، کو اتنا نقصان پہنچا کہ وہ جنگ کے کے دوران بندرگاہ تک محدود ہو کر رہ گئے تھے۔ اگرچہ اس جنگ میں امریکہ کی تعداد جاپانی بحری بیڑے سے زیادہ تھی لیکن اسی جنگ کی ایک اہم لڑائی ایسی بھی تھی جہاں معاملہ الٹ تھا۔ اس میں ایک چھوٹی امریکی ٹاسک فورس کی بڑی جاپانی بحری فارمیشن سے مُڈھ بھیڑ ہو گئی تھی۔ یہ جنگ ’جزیرہ سمر‘ کے قریب لڑی گئی تھی جس میں بڑے دشمن کے مقابلے میں اس چھوٹے امریکی بحری بیڑے نے سخت مشکلات کا مقابلہ کیا اور بہتر ہتھیاروں سے لیس جاپانی بحری جہازوں کا سامنا کیا۔ اس چھوٹے امریکی بحری بیڑے کی مزاحمت اس قدر شدید تھی کہ اس نے جاپانی کمانڈر، وائس ایڈمرل تاکیو کریتا کو اپنے بیڑے کا رُخ موڑنے پر مجبور کر دیا کیونکہ مزاحمت دیکھتے ہوئے انھیں لگا کہ اُن کا سامنا امریکی بحریہ کے مرکزی بیڑے سے ہوا ہے۔ چھوٹے امریکی جہاز جاپانی جنگی جہازوں کے جتنا ممکن ہو سکا، قریب آ گئے۔ اس حکمت عملی کا فائدہ یہ ہوا کہ جاپانی جہاز اپنی طاقتور لمبی رینج والی توپوں کو استعمال ہی نہیں کر سکے۔ امریکی بیڑے کو اس مزاحمت کی بھاری قیمت چکانی پڑی اور اس جھڑپ کے دوران 13 میں سے پانچ امریکی بحری جہاز ڈوب گئے۔ جاپانی کپتان نے ڈوبتے امریکی جہاز کو سلامی دی ان ڈوبنے والے بحری جہازوں میں سے ایک ’یو ایس ایس جانسٹن‘ تھا۔ صبح سات بجے جانسٹن جاپانی جہاز ’یاماتو‘ کے گولوں کی زد میں آ چکا تھا۔ گولوں کا نشانہ بننے کے باوجود جانسٹن بحری جہاز مزید دو گھنٹے تک لڑتا رہا اور دشمن کے بہت بڑے بحری جہازوں پر اپنی توپوں سے گولے برساتا رہا۔ اس کی کوششوں نے جاپانی بحریہ کے جہازوں کو ہلکے ہتھیاروں سے لیس امریکی طیارہ بردار جہازوں سے دور رکھا۔ دو گھنٹے کی مسلسل لڑائی کے بعد جانسٹن جاپانی بحریہ کے درجنوں گولوں کا نشانہ بن چکا تھا۔ عملے کے زندہ بچ جانے والے ارکان ٹوٹے ہوئے بحری جہاز کے عقبی حصے سے چمٹے ہوئے تھے۔ آخر کار جہاز عملے کے 327 اہلکاروں میں سے 186 اہلکاروں سمیت ڈوب گیا۔ زندہ بچ جانے والوں نے اطلاع دی کہ جاپانی بحری جہازوں کے ایک کیپٹن نے اس ڈوبتے ہوئے امریکی جہاز کی شاندار لڑائی پر اسے اُس وقت سلامی دی جب وہ سمندر کی لہروں میں غائب ہو رہا تھا۔ لیکن یہ کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی۔ بیشتر ڈوب جانے والے بحری جہازوں کا ملبہ کم گہرے ساحلی پانیوں سے ملتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بحری جہاز بندرگاہوں کے قریب قریب تجارتی راستوں پر چلتے ہیں تاکہ اگر موسم خراب ہو جائے تو ساحلی پانی ان کی پناہ گاہ ہو۔ تو یہ وہ جگہ ہوتی ہے جہاں زیادہ تر جہاز ڈوبتے ہیں۔ لیکن جانسٹن جس پانی میں ڈوبا وہ بہت مختلف معاملہ تھا۔ کسی قریبی ساحل کے پاس ڈوبنے کی بجائے وہ سمندر کی اتھاہ گہرائیوں میں تیزی سے گرتا چلا گیا۔ سمر جزیرہ ایک وسیع سمندری وادی کے کنارے پر ہے جسے فلپائنی خندق (ٹرینچ) کہا جاتا ہے۔ یہ فلپائن اور انڈونیشیا کے ساحل کے

سات…

 

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں