179

بیٹے کی زندگی مانگتے مانگتے ماں خود چلی گئی ۔۔ یہ پاکستانی لڑکا کون ہے جس سے پوری دنیا کے غیر مسلم ڈاکٹرز ملنے کیوں آتے ہیں

ماں اپنے بچے کو صرف 9 ماں اپنے پیٹ میں ہی نہیں رکھتی بلکہ اس کے درد کو اپنا درد مانتی ہے اور اسے بے شک کوئی نہ بتائے پھر بھی ماں وہ ہستی ہے جو اپنے بچے کے درد کو محسوس کر لیتی ہے۔یہ بات ہم اس لیے یہاں کر

رہے ہیں کیونکہ آج جو ہم ماں کی اپنے بچے سے محبت کی داستان آپکو سنانے جا رہے ہیں اسے سننے کے بعد آپکے آنسو بہنا نہیں رکیں گے۔ بات کچھ یوں ہے کہ فہیم رضانامی ایک لڑکا جو جھنگ پنجاب کا رہائشی ہے اسے اس وقت کینسر کا علم ہوا جب وہ خود دسویں کلاس میں تھا۔ فہیم خود بتاتے ہیں کہ دسویں کلاس کا آخری پیپر دے کر میں آ رہا تھا کہ راستے میں بےہوش ہو گیا۔ تو دوست قریبی اسپتال میں لے گئے جہاں ڈاکٹرز نے مجھے چیک کیا اور کہا ہمیں یوں لگتا ہے کہ اسے کینسر ہے آپ اسے شوکت خانم لے جائیں۔ اس کے بعد دوست اور گھر والے شوکت خانم لے گئے وہاں بھی یہی جواب ملا جس کے بعد سی۔ایم۔ایچ لے گئے انہوں نے بھی کہا کہ ان کے کینسر جس اسٹیج پر ہے اس کا علاج ہمارے پاس نہیں آپ انہیں گھر لے جائیں یہ کچھ دیر کے مہمان ہیں۔ انہیں یوں اسپتال اسپتال گھمائیں نہیں لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری اور میرے ماموں کے کچھ ڈاکٹرز جاننے والے تھے اور ایک رشتہ دار بھی ڈاکٹر تھا۔ تو انہوں نے میری رپورٹس امریکا، لندن اور بھارت بھجوائیں انہوں نے بھی یہی کہا کہ ان کا کینسر 98 فیصد ہے اور یہ آخری اسٹیج ہے ہمارے پاس اس کاعلاج نہیں۔ لیکن ہمارے رشتےدار جو ڈاکٹر ہیں وہ مجھے لے گئے۔ اسلام آباد الشفاء انٹر نیشنل اسپتال جہاں ڈاکٹر کامران رشید سے ہماری ملاقات ہوئی تو وہ پہلے تو مانے ہی نہیں کہ مجھے کینسر ہے کیونکہ میں بالکل ان کے سامنے ٹھیک ٹھاک بیٹھا ہوا تھا۔ لیکن جب انہیں ہم نے بار بار کہا تو انہوں نے میرے ٹیسٹ کیے جس میں مجھے واقعی کینسر آیا تو مجھ سے پوچھا کہ تمہیں ڈر نہیں لگ رہا تو میں نے کہا کہ جب موت آنی ہوگی آ جائے گی میں اور آپ کچھ بھی نہیں کر سکیں۔ اس بات پر ڈاکٹر صاحب بہت خوش ہوئے اور میرے حوصلے کی داد دی اور کہا کہ میں اب آپ کا علاج کروں گا، شفاء اللہ پاک دے گا لیکن اپ ٹھیک ضرور ہو جاؤگے۔ مزید یہ کہ جب میں پہلی کیمو تھراپی کے بعد گھر آیا تو میری والدہ میرے ہی کمرے میں سوئی ہوئی تھی اور جب رات کو میری آنکھ کھلی تو دیکھا کہ امی کمرے میں نہیں ہیں، تو پریشان ہوا۔ اور کمرے کی لائٹ جلائی تو دیکھا کہ والدہ اپنے چارپائی کے نیچے لیٹی ہوئی تھیں اور اللہ پاک سے دعاگو تھیں کہ یا میرے اللہ، میرے بچے کو بچا لے اور اس کی تمام بیماریاں مجھے دے دے۔ یہ الفاظ میں نے سنے تو کہا کچھ نہیں ہو گا مجھے آپ باہر آئیں تو کہنے لگی میں یہاں ہی رہوں گی پر میرے اسرار کرنے پرباہر نکل آئیں تو بس پھر کیا تھا ماں کی دعا تھی۔ اللہ پاک کیسے رد کر سکتا تھا کچھ دنوں بعد جب میں اسپتال گیا تو ڈاکٹرز نے پھر میرے ٹیسٹ کیے اور کہا کہ کون کہتا ہے کہ آپکو کینسر ہے مبارک ہو۔ کینسر بالکل ختم ہو چکا ہے یہی نہیں بلکہ بچے کے جسم میں موجود خون کے زرے (پلیٹیلٹس) بڑھ گئے ہیں ایک نارمل انسان کی طرح۔ لیکن اب وہیں ہمارے پاس خبر آ گئی کہ امی کو اسپتال لے گئے ہیں جہاں پر امی میں کینسر ڈائیگنوس ہو گیا ہے۔ اور کچھ دن بعد امی کی ٹانگ کاٹ دی گئی ٹخنے سے۔ ابھی دکھ کم نہیں ہوا تھا کہ کچھ دن بعد یہ خبر آ گئی کہ والدہ کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ برداشت نہیں کر سکیں جس کی وجہ سے وہ اس دنیا سے کوچ کر گئیں۔ یہ دھچکا میرے لیے سب سے بڑا دکھ تھا کیونکہ اس دنیا میں جو میرا سب سے بڑا سہارا تھا وہ تو چلا گیا۔ ساتھ ہی ساتھ فہیم نے یہ بھی بتایا کہ کیمو کے بعد جسم میں جو بھی کینسر کے زرات ہوتے ہیں وہ کسی بھی جگہ سے اکٹھے ہو کر جسم پھاڑ کر نکلتے ہیں تو میرے بھی ٹخنے کے پاس سے نکلے اور مجھے بھی اسی وقت ہارٹ اٹیک آیا جب امی کو آیا تھا۔ بس ہم الگ الگ اسپتال میں داخل تھے تو اس بات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ میرا ہارٹ اٹیک بھی میری ماں نے اپنے پر لے لیا اور کینسر بھی۔ اس کے علاوہ اب جب میں مکمل ٹھیک ہوں تو اس میں میرے بر بھائی کا بھی بہت ہاتھ ہے کیونکہ ڈاکٹرز نے کہا کہ ہم اس کا وہ علاج کریں گے کہ اس کے جسم میں کینسر دوبارہ داخل نا ہو تو اس کے لیے آپکا بون میرو چاہیے ہوگا۔ لیکن پھر آپکی طبعیت بھی خراب ہونے کا ڈر ہے لیکن میرے بھائی نے کہا

کہ اللہ نے مجھے سب کچھ دیا ہے۔ میرے بچے بیوی ہیں آپ بس میرے بھائی کو بچائیں میں اپنا سب کچھ دینے کو تیار ہوں، میرا چھوٹا بھائی ہے لیکن آج میرے…

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں